• صارفین کی تعداد :
  • 3012
  • 4/13/2013
  • تاريخ :

مشتاق احمد يوسفي

مشتاق احمد يوسفي

مشتاق احمد يوسفي 14 اگست 1923ء، ٹونک ميں پيدا ہوئے- مشتاق، مسلم کمرشل بنک کے شعبے سے، 1962ء ميں، عملي زندگي کا آغاز کيا اور ايم- اے فلاسفي اور ايل- ايل- بي تک تعليم پائي- يوسفي نے جےپور، آگرہ اور علي گڑھ ميں تعليم پائي-

مشتاق احمد يوسفي، بنيادي طور پر مزاح نگار ہيں- ان کے مزاح کا سب سے مضبوط اور مۆثر پہلو ان کے کردار يعني characters ہيں نہ کہ واقعات، اور مشتاق کي ظرافت، بصيرت پر مبني ہے- مشتاق کے يہاں حوالوں اور اشاروں کا دائرہ وسيع ہے جو ان کے علم اور مشاہدے کي وسعت پر دلالت کرتا ہے- يوسفي کے مضامين ميں تفکر اور تفنن کا ايک امتزاج ملتا ہے جو ان کي شخصيت کي نمودار ہے-

مشتاق احمد يوسفي، بنيادي طور پر مزاح نگار ہيں ليکن وہ، فرحت اللہ بيگ، پطرس بخاري اور شوکت تھانوي کي طرح خالص مزاح نگار نہيں، يوسفي کے مزاح ميں جابجا طنز کي بجلياں چمکتي نظر آتي ہيں- اور ان کے طنز ميں تلخ و ترشي اور درشتي و دلخراشي کي بجائے صرف تبسم خيزي اور لطف انگيزي پائي جاتي ہے- اور ان کا مزاح شستہ اور طنز شائستہ ہوتا ہے-

يوسفي: اسٹيفن لي کاک اور مارک ٹوئن، انگريز مزاح نگاروں سے متأثر ہيں اور اردو ميں ان کي زيادہ اثرپذيري رشيد احمد صيديقي ہي سے ہے- يوسفي کے ہم عصر مزاح نگار، ابن انشاء، ضمير جعفري، کرنل محمد خان اور شفيق الرحمن ہيں، مگر مشتاق احمد يوسفي نے طنز و مزاح کو فن بنا ديا اور اس کے خد و خال کو نہايت ہوشياري سے نماياں کيا- وہ اس مقولے پر عمل کرتے ہيں کہ "قلم گويد کہ من شاہجہانم" انہوں نے اپنے اسلوب و فکر سے قلم کو واقعي "شاہجہاں" بنانے کي کوشش کي اور اس ميں کامياب بھي رہے-

يوسفي کا پہلا مضمون: "صنف لاغر" ہے اور ماہنامہ سويرا ميں چھپا-

يوسفي کي تصانيف کے نام: چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آب گم

يوسفي کے مزاح کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ وہ رشيد احمد صديقي اور پطرس بخاري کا حسين امتزاج ہے- اور نذير صديقي اس طرح رقمطراز ہيں کہ: اگر رشيد احمد صديقي کي کمزوريوں کو، ان کي خوبيوں سے گٹھاديں تو حاصل تفريق، مشتاق احمد يوسفي رہيں گے، وہي تجنيس کا استعمال، وہي خيالات اور الفاظ کا حيرت انگيز اجتماع، وہي ذہانت کي چمک اور لطف يہ ہے کہ مشتاق احمد يوسفي، رشيد احمد کي خوبيوں کو اپنانے کے باوجود، ان کي کمزوريوں سے محفوظ رہے-

ليکن مشتاق احمد يوسفي اور رشيد احمد صديقي کا فرق يہ ہے کہ: رشيد احمد صديقي کا افق محدود ہے، وہ ايک خاص ماحول (عليگڑھ) کي بات کرتے ہيں ليکن مشتاق احمد يوسفي، پوري سوسائٹي کي بلکہ اس سے بڑھ کر، پوري تہذيب کو سامنے رکھتے ہيں- اس ميں شک نہيں کہ يوسفي کا انداز بيان رشيد احمد صديقي کا سا ہے ليکن خيالات و مشاہدات ميں فرق ہے، يوسفي کے ہاں مشاہدے و خيال کي تکرار نہيں، يوسفي کے ہاں تازہ خيالات و مشاہدات کي فراواني ہے-

مشتاق احمد يوسفي طنز و مزاح کو حاصل کرنے کےلئے ان طريقوں سے (ان حربوں کو) استعمال کرتے ہيں-

مزاح، مزاح کے لغوي معني دل لگي، ہنسي، خوش طبعي اور خوش ذوقي ہے ß اصطلاح ميں مزاح ميں زندگي کي ناہمواريوں پر ہمدردانہ شعر رہے نظر ڈالي جاتي ہے- اصل بات يہ ہے کہ زندگي کي ناہمواريوں کے ہمدردانہ شعور کا نام مزاح ہے . مشتاق احمد يوسفي اپني تحرير ميں مزاح پيدا کرنے کےلئے ان طريقوں سے عمل کيا ہے-

موازنہ: دو چيزوں کي آپس ميں مشابہت يا تضاد سے ايسي کيفيت پيدا کرنا، جو ہنسي کو تحريک رہے- مثال کے طور پر مشتاق احمد يوسفي لکھتے ہيں: "بلي چوہے کو پکڑ سکتي ہے يا نہيں، اس سے کوئي فرق نہيں پڑتا کہ وہ سياہ ہے يا سفيد"

زبان و بيان کي بازيگري: لفظي بازيگري سے مزاح پيدا کرنے کے کئي طريقے ہيں جن ميں الفاظ کي تکرار اور رعايت لفظي سب سے بھي زيادہ ہے-

"جو نقصان دہ تنخواہ لےکر پہنچاتا تھا، اب بلا تنخواہ پہنچائے گا"

مزاحيہ کردار: وہ کردار جس کي وجہ سے سارا ماحول مضحکہ خيز صورت اختيار کر ليتا ہے-

تحريف يا پيروڈي: کسي اديب يا شاعر کے کلام کے الفاظ کو کچھ اس طرح تبديل کرنا کہ اس ميں مزاح کا رنگ پيدا ہو جائے، اسے تحريف يا پيروڈي کہتے ہيں- يوسفي نے اس خوبصورت انداز ميں اشعار کي پيروڈي کي ہے کہ ان کے اورجينال ہونے کا گمان ہوتا ہے-

ہزارہا شجر سايہ دار راہ ميں ہے ß ہزارہا زن اميدوار راہ ميں ہے

آگ تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں ß آگ تکفير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں

ظرافت: ظرافت ميں صنعت لفظي سے کام ليا جاتا ہے يعني تحرير ميں انتہائي بےساختگي سے ايک خاص لفظ استعمال کرنے کےبعد، اس لفظ کي مناسبت سے اور رعايت ہے، اس کے ہم معني يا اس سے ملتے جلتے لفظ استعمال کرنا رعايت لفظي ہے- مجموعي طور پر اگر بيان ميں لفظي شعبدہ بازيوں سے کام لےکر مزاح پيدا کيا جاتا ہے، اسے ظرافت کہتے ہيں-

"بھائي ميرے: ميں تو دودھ کي آئس کريم صبر و شکر سے کھاتا ہوں، کبھي تولہ ماشہ کي قيد نہيں لگائي"

مجموعي طور پر، يوسفي کي مزاح نگاري، ظرافت اور طنز کي تہ ميں، ان کي دردمندي ہے، ان کے ستم کے پيچھے، آنسوۆ ں  کي ايک لہر رواں ہے- يوسفي کي تحريروں ميں مزاح، چارلي چپلين کي اداکاري سے مشابہ ہے- چارلي چپلين کي عظمت يہ ہے کہ وہ اپني حرکات و سکنات سے زندگي کے دکھ سکھ کو گوارا بناتا ہے ß اس کے غم و اندوہ ميں حسن ديکھتا ہے اور يوسفي کے مزاح ميں بھي يہي دردمندي پائي جاتي ہے-

يوسفي کي مزاح نگاري کے بارے ميں مجنوں گورکھپوري لکھتے ہيں: "يوسفي کا قلم جس چيز کو بھي چھوتا ہے اس ميں نئي زندگي اور تازہ باليدگي پيدا کر ديتا ہے ان کي کوئي سطر يا لفظي ترکيب ايسي نہيں ہوتي جو پڑھنے والے کي فکر و نظر کو نئي روشني نہ دے جاتي ہو، يوسفي ايک ظرافت نگار کي حيثيت سے ايک نيا دبستان ہيں"


متعلقہ تحریریں:

غبار خاطر کي اہميت