• صارفین کی تعداد :
  • 2159
  • 4/15/2012
  • تاريخ :

اشاعت اسلام کے مرکزي ايشيا پر اثرات ( حصّہ دھم )

بسم الله الرحمن الرحيم

خدا کے انکار کا ايک عجائب گھر بخارا کي ايک قديم مسجد ميں نقشبندي صوفيوں کے مقبروں کے نزديک کھولا گيا، مسجدوں کے بند کرنے کي کينہ توزي اس حد تک پہنچ گئي تھي کہ زيادہ تر بڑي مسجدوں کو بند کرديا گيا اور تقريباً ديہاتوں کي چھوٹي تمام ہي مسجدوں ميںتالے لگادئيے گئے، 1947ء اور 1975ء کے درميان روس ميں اسلام مخالف 923 کتابيں اور کتابچے مسلمانوں کي 21 زبانوں ميں نشر کئے گئے، يہ تعداد دوسري اسلام مخاف کتابوں کے علاوہ ہے-  1964ء ميں روس کے ايک محقق کي تحقيق کے مطابق روشن ہوا کہ مساجد اور ديگر مذہبي مراکز کي قلت کے باوجود مسلمانوں کي تعداد پہلے جيسي ہي تھي، اسلام مخالف پروپيکنڈے مسلمانوں کو متعاقد کرنے اور ان کو اپنے عقائد سے دست بردار کرنے ميں ناکام رہ گئے مسلمانوں اور روسيوں کے درميان معاشرتي تاثير وتاثر ايک ظاہري امر تھا، آپس ميں نسلي ملاپ بہت کم تھا، نسلي اور نژادي انفکاک خصوصاً ديہاتوں ميں اپني پہلي حالت پر باقي تھا، شہروں ميں معاشرتي ميل جول کا فقدان ان کو ايک دوسرے سے جدا کرتا تھا، مسلمانوں اور روسيوں کے درميان شادياں بہت کم ہوتي تھيں، يہاں تک کہ ايک مسلمان مرد کي روسي عورت کے ساتھ شادي کرنا بالکل غيرمعمول اور رائج نہ تھا.

1980ء کے اواخر ميں جب سے ميخائل گورباچوف کے ہاتھ ميں سوويت يونين کا اقتدار آيا تو اس کي سياست يعني ”‌پروسٹوريکا“ اور ”‌گلاسٹوسٹ“ مرکزي ايشيا پر موثر ثابت ہوئي، اس کا سب سے بڑا نتيجہ اسلام سے ہماہنگ آئين کا قبول کرنا ظاہر ہوا، يہ تبديلي مقامي افراد کے لئے تعجب اور اشتياق کا سبب ہوئي، يہ سياست ايک تہذيبي، اجتماعي اور مذہبي حادثہ تھا اور عام لوگ چاہتے تھے کہ کومنسٹوں کي مسلّط تہذيب اور کلچر سے اپني جدا ئي کو ثابت کريں، کئي نئي مسجديں بنائي گئيں اور بہت سے علاقوںميں چند ايک غير رسمي مذہبي دروس شروع ہوگئے ، اگرچہ ابھي تک حکومت کے کليدي عہدہ دار کومنسٹ پارٹي سے تھے اور مذہبي رسومات کا انجام دينابھي ممنوع تھا ليکن اس کے باوجود حکومت، اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کي تشويق دلاتي تھي، مذہب کي حيات نو کے ساتھ ساتھ صوفيزم ميں بھي کہ جو مرکزي ايشيا ميں جڑ پکڑے ہوئے تھا، زندگي کي ايک لہر دوڑ گئي-