• صارفین کی تعداد :
  • 1255
  • 7/17/2012
  • تاريخ :

شعر گوئي سے رومي کے کيا کيا مقہصد  ہيں؟

مولانا رومی

     وہ شعر کو ہنر مندي کاذريعہ نہيں بناتے- وہ تو ان کے ليے آئينہ روح ہے - وہ زندگي سے نااميد نہيں ہوتے - اميد ہميشہ ان کے عشق ميں موجزن رہتي ہے -ان کا ديوان سبزہ زار عشق اور لالہ محبت ہے- وہ نور مطلق کے نزديک ہو جاتے ہيں اور اپنے آپ کو سراسر عشق ، سراسر عقل اور سراسر جان خيال کرتے ہيں :

نہ ابرم من نہ برقم من نہ ماھم من نہ چرخم من

ھمہ عشقم ھمہ عقلم ھمہ جانم بہ جانانہ

شعر گوئي سے ان کا مقصد يہي ہے کہ حقائق شعر کا لبادہ اوڑھ ليں- چنانچہ فرماتے ہيں:

خواہم کہ کفکِ خونين از ديگ جان بر آرم

گفتار دو جہان را از يک دھان بر آرم

     يہ صفت عروج و کمال کے ساتھ مثنوي ميں ملتي ہے ليکن ديوان ميں بھي يہي نماياں ہے مثلاً سرّاَنا کے متعلق کہتے ہيں:

از کنار خويش يابم ہر دمي من بوي يار

عشق اور بندگي کے بارے ميں:

ديگران آزاد سازند بندہ را

عشق بندہ ميکند آزاد را

     ديوان شمس تبريزي تکلف اور تصنع سے اس حد تک دور ہے کہ شعر ميں صنايع ظريف و مطلوب کي جانب توجہ ضروري نہيں سمجھي جاتي کيونکہ اشعار کہنے والا کسي اور چيز ميں محو ہے - وہ فقط اپنے خيال اور احساس کو پيش کرتا ہے - گاہے بغير کسي اختيار اور ارادے کے يہ عمل مکمل ہوتا ہے :

مارا سفري فتاد بي ما

آنجا دل ما گشاد بي ما

مائيم ہميشہ مست بي مي

مائيم ہميشہ شاد بي ما

     مولانا کے اشعار کا مطلب سمجھنے ميں دقت اس ليے نہيں ہوتي کہ وہ مانوس اور عام فہم الفاظ بروئے کار لاتے ہيں - اس پر مستزاديہ کہ خيالات ميں صفائي اور سادگي ہونے کے سبب تصورات ميں الجھاو نہيں- فرماتے ہيں :

بر چرخ ، سحر گاہ يکي ماہ عيان شد

از چرخ فرود آمد و در ما نگران شد

درجان چو سفر کردم جز ماہ نديدم

تا سرّ تجلي ازل، جملہ بيان شد

***

عشقست بر آسمان پريدن

صد پردہ بہر نفس دريدن

ہر کہ بہر تو انتظار کند

بخت و اقبال را شکار کند

تحرير : ڈاکٹر انعام الحق کوثر

پيشکش: شعبہ تحرير و پبشکش تبيان


متعلقہ تحریریں:

نور تبريز