• صارفین کی تعداد :
  • 3011
  • 3/5/2012
  • تاريخ :

عيد نوروز سے جشن بہاراں تک ( حصّہ ششم )

عید نوروز

ہندوستان ميں موسم بہار ميں ايک جشن کا اہتمام کيا جاتا ہے جسے " بسنت  " کہا جاتا ہے - ہندو بسنت کو ”‌پالا اُڑنت“ کا نام  دے کر اسے موسمي تہوار بتاتے ہيں -

 ايراني تاريخ دان البيروني کے  بيان کے مطابق ہندوجوتشي ہر سال استوائے ربيعي کا تعين کرکے ’يومِ بسنت‘ کا اعلان کرتے ہيں، يہي تصور آج تک چلا آ رہا ہے- بيساکھي کا تہوار بيساکھ کے مہينے ميں گندم کي کاشت کے موقع پر کيا جاتا ہے- بظاہر يہ بھي ايک ثقافتي تہوار ہے مگر اس موقع پرہندو کاشتکار برہمنوں کو گندم کے نذرانے ديتے ہيں اور ديوتاğ سے گندم کي فصل کے زيادہ ہونے کي دعائيں کي جاتي ہيں-

محمد حنيف قريشي صاحب اپنے مضمون ميں ”‌بسنت کا تہوار، تاريخ و مذہب کے آئينہ ميں“ لاہور ميں بسنت کے تہوار کے بارے ميں موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہيں:

”‌يہ بات اکثر کہي جاتي ہے کہ بسنت ايک موسمي اور ثقافتي تہوار ہے، جس کا مذہب اور قوم سے کوئي تعلق نہيں تاہم ابھي ايسے بزرگ ہزاروں کي تعداد ميں موجود ہوں گے جو اس امر کي شہادت ديں گے کہ آزادي سے قبل بسنت کو عام طور پر ہندوğ کا تہوار ہي سمجھا جاتا تھا اور لاہور ميں ہي جوش و خروش سے منايا جاتا تھا- جہاں دو تين جگہ بسنت ميلہ منعقد ہوتا تھا، ہندو مرد اور عورتيں باغبانپورہ لاہور کے قريب حقيقت رائے کي سمادھ پر حاضري ديتے اور وہيں ميلہ لگاتے- مرد زرد رنگ کي پگڑياں باندھے ہوتے اور عورتيں اسي رنگ کا لباس ساڑھي وغيرہ پہنتيں- سکھ مرد اور عورتيں اس کے علاوہ گوردوارہ اور گورومانگٹ پہ بھي ميلہ لگاتے- ہر جگہ خوب پتنگ بازي ہوتي- اندرون شہر بھي پتنگيں اُڑائي جاتيں اور لاکھوں روپيہ اس تفريح پر خرچ کيا جاتا- مسلمان بھي اس ميں حصہ ليتے مگر زرد کپڑوں وغيرہ کے استعمال سے گريز کرتے- يہ سارا کھيل دن کو ہوتا، رات کو روشنياں لگانے اور لاؤڈ سپيکر، آتش بازي يا اسلحہ کے استعمال کا رواج نہ تھا“ ( نقوش، لاہور نمبر)

يہاں يہ بات بتانے کا مقصد يہ تھا کہ ہندوستان اور پاکستان ميں مناۓ جانے والے موسم بہار کے جشن پر  مذھبي اثرات غالب رہے ہيں - برصغير، پاک و ہند ميں مسلمان اور ہندو صديوں سے  اکٹھے زندگي گزار رہے ہيں  - اس ليۓ  ہندو ثقافت کے مسلمان معاشرے پر اثرات پڑتے رہے ہيں  جس کي وجہ سے موجودہ دور ميں موسم بہار کے جشن کے دوران  ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں ميں بھي ايسي رسوم  ديکھنے کو ملتي ہيں جو ہندو معاشرے سے اپنائي گئي ہيں مثلا موسم بہار کے موقع پر پتنگ بازي  اور رقص و موسيقي وغيرہ وغيرہ -  اسلامي معاشرے ميں تہواروں کو منانے کا اپنا الگ طريقہ کار ہے - اسلامي تہوارايک عجيب ثقافت ،شان، شائستگي اور اخلاقي بلندي کے حامل ہوتے ہيں-اس ميں نہ لہو ولعب ہوتا ہے ، نہ گھٹيا تفريحات - ان کا بنيادي نصب العين ملت اسلاميہ ميں اتحاد، بھائي چارہ، محبت اور يگانگي پيدا کرنا اور پاکيزہ اطوار دينا ہوتا ہے- اس ليۓ مسلمان ہونے کي حيثيت سے برصغير کے مسلمانوں کو چاہيۓ کہ وہ اپنا اسلامي تشخص برقرار رکھتے ہوۓ موسم بہار کے جشن کو مہذب طريقے سے منائيں اور غير مسلموں  کے رسوم کي تقليد سے پرہيز  کريں -

تحرير و ترتيب :  سيد اسداللہ ارسلان