• صارفین کی تعداد :
  • 4046
  • 12/29/2011
  • تاريخ :

قائد شہيد علامہ عارف حسين الحسيني (تيسرا حصّہ)

قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی

علامہ عارف حسين الحسيني کے چہلم کے موقع پر حضرت امام خميني (رح) نے پاکستاني قوم کے نام جو پيغام بھيجا وہ ہر دور کے انسانوں کي آنکھيں کھولنے کے لئے کافي ہے- اس لئے کہ يہ پيغام کسي عام شخص کا نہيں اُس کا پيغام ہے جس کي دانش وبينش کا ڈنکا مشرق و مغرب ميں بجتا ہے- اس پيغام کو پڑھتے ہوئے ہمارے ذہنوں ميں يہ بات رہني چاہيے کہ ہر آدمي اپني فہم و فراست کے مطابق کسي نظريے يا شخصيت کي حمايت يا مخالفت کرتا ہے- اگر ہم علامہ عارف حسيني کي شخصيت کو سمجھنا چاہتے ہيں تو حضرت امام خميني (رح) کي دانش و بينش کي روشني ميں سمجھنا ہو گا-

اپنے پيغام کے پہلے پيراگراف ميں حضرت امام خميني نے علامہ عارف حسيني کو حضرت امام حسين(ع) کا فرزند صادق قرار ديا ہے- کچھ آگے چل کر آپ فرماتے ہيں کہ عارف حسيني جيسي شخصيت کو اور کيا بشارت ہو سکتي ہے کہ محرابِ عبادت حق سے ارجعي اليٰ ربک کے خونين عروج و کمال کا نظارہ کريں- اسي پيغام ميں حضرت امام خميني (رح) نے پاکستاني قوم کو شہيد کے افکار زندہ رکھنے کي تاکيد بھي کي ہے-

امام خميني (رح) کے دل ميں علامہ عارف حسين الحسينيط’ کي محبت و عشق کا يہ عالم تھا کہ اپنے پيغام کے آخري حصّے ميں آپ نے فرمايا کہ ميں نے ايک عزيز ترين فرزند کھو ديا ہے-جس طرح علامہ حسيني سے حضرت امام خميني (رح) کي شديد محبت اور عشق ديکھنے ميں آتا ہے اسي طرح علامہ عارف حسينيبھي امام ط’ سے انتہائي عشق رکھتے تھے- جيسا کہ ايک موقع پر علامہ عارف نے خطاب کرتے ہوئے فرمايا تھا کہ امام خميني (رح) کے ذريعے دنيا کے تمام مسلمانوں پر حق کي حجت تمام ہو چکي ہے- ميں آمادہ ہوں کہ اپني جان و مال اور اولاد قربان کر دوں ليکن اس بات کے ليے تيار نہيں ہوں کہ خطِ ولايت فقيہ سے ايک انچ بھي پيچھے ہٹوں-

جس طرح ايران کے شہيد مطہري، عراق کے باقرالصدر اور لبنان کے راغب حرب، حضرت امام خميني (رح) ميں ضم تھے اُسي طرح عارف حسيني بھي حضرت امام (رح) ميں ضم تھے-

علامہ عارف حسيني کي تعليمي دور ميں اسلامي انقلاب سے وابستگي اور پھر پاکستان ميں مجاہدانہ کردار کا مطالعہ کرنے کے بعد صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ علامہ شہيد کو ہم لوگ پہچان نہيں سکے- ہم اپني محدود فکر و علمي بے بضاعتي کے باعث اُس شخص کي عظمت و رفعت کو کيا سمجھيں! جس کے کردار کي پاکيزگي کي گواہي دشمن بھي ديں- جس کي شرافت پر قاتل بھي رو پڑے، جس کے صبر و تحمل کي تصديق حاسد بھي کريں اور جس سے عشق و وابستگي کا اظہار حضرت امام خميني (رح) جيسا رہنما کرے-

عارف حسيني کي شخصيت ہمارے عہد سے کئي برس آگے اور ہماري فکروں سے کئي گنا بلند تھي- آپ عملي طور پر اہل بيت (ع) اور حضرت امام خميني (رح) کي طرح عشق الٰہي سے سرشار تھے اور عشقِ الٰہي کے ذريعے سے ہي بے مقصد لوگوں کي زندگيوں کو با مقصد بنا دينا چاہتے تھے- جيسا کہ نارو وال ميں کئے جانے والے خطاب کے دوران آپ نے فرمايا تھاکہ ہميں اپني تمام تر توانائياں دين اسلام کي سر بلندي کے لئے صرف کرنا ہو ں گي يقيناً راہ خدا ميں گزرنے والا ايک دن، بے مقصد سو سالوں سے بہتر ہے-

قائد شہيد سے عشق کا تقاضا يہ ہے کہ ہر سال قائد شہيد کي برسي منعقد کرتے ہوئے ہمارے ذہنوں ميں بھي يہ بات رہے کہ راہِ خدا ميں منعقد ہونے والي ايک با مقصدبرسي، بے مقصد منعقد ہونے والي سو برسيوں سے بہتر ہے-

کتني صديوں کے بعد

آج پھرآسمان سے

بارش ہوئي خون کي

آج پھرابل پڑا

پتھروں سے لہو

آج پھر گونج اُٹھي

ماتم سے فضا

اب تو جہاں بھي

بزم عُشّاق سجے گي

اب تو جب بھي

ہدف اور حق کي بات ہو گي

اب تو جب بھي

بے مقصد اور با مقصد کا ٹکراؤ ہو گا

اب تو جب بھي

ملک و قوم کي خاطر قرباني کي بات ہو گي

عارف حسيني

تجھے پاکستان بہت ياد کرے گا

فرياد کرے گا---

بشکريہ : اردو فورٹين ڈاٹ کام

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان