• صارفین کی تعداد :
  • 2391
  • 5/2/2011
  • تاريخ :

فلسفہٴ قربانی (حصّہ پنجم)

بسم الله الرحمن  الرحیم

 کیا کروں کہ میرے ذہن میں ایک اور پریشانی پیدا ہوگئی، ایک خلش اور پیدا ہوگئی ، وہ یہ کہ جس کا فدیہ ہو، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مقصودِ اصلی ہے اور جو فدیہ ہے، وہ ثانوی طور پر مقصود ہے۔ تو یہ پریشانی کسی اور کو نہ ہوتی ، ہم ہی کو ہوسکتی ہے کہ جنابِ اسماعیل بڑے جلیل القدر سہی لیکن ان کا فدیہ سید الشہداء ہوجائیں، یہ کچھ ذہن میں آنے والی بات نہیں ہے۔اب یہ خلش بہت بڑی ہے۔ حقیقت میں یہ خلش ہے ترجمہ کی غلطی کی وجہ سے کہ "ب" کو صلہ اور تادیہ قرار دے لیا ہے کہ ذبح عظیم کو ہم نے فدیہ بنایا۔ اس سے یہ پریشانی پیدا ہوئی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ہے ہی نہیں۔یہ "ب" تادیہ اور صلہ کا نہیں ہے۔ یہ "ب" بائے سبب ہے۔ "فَدَیْنَاہُ"، ہم نے فدیہ بھیج دیا۔ بات پوری ہوگئی۔ ہمیں معلوم ہے کیا ہے؟ وہ وہی گوسفند تھا۔ "فَدَیْنَاہُ"، یہ جملہ گویا مکمل ہوگیا کہ امتحان ہوگیا، کامیابی حاصل ہوگئی۔ ہم نے کہا کہ ہم نے فدیہ بھیج دیا اور وہ جو بھیجا، وہ ہمیں معلوم ہے کہ گوسفند ہے۔ اب وہ گویا کہتا ہے کہ ہم سے پوچھو کہ ہم نے کیوں وہ فدیہ بھیج دیا؟

چونکہ سنت ِ الٰہیہ یہ نہیں رہی ہے کہ وہ اپنے انبیاء و اولیاء کو خطروں سے بچایا کرے، اگر وہ انبیاء و اولیاء کو خطروں سے بچایا کرتا تو مثالِ استقلال کیونکر قائم ہوتی؟ زکریا کو آرے سے چیر ڈالا گیا تو آرے کو ان کے چیرنے سے نہیں روکا گیا۔اسی طرح یحییٰ کا سر قلم کیا گیا تو تلوار کو کند نہیں کیا گیا۔تو سنت ِ الٰہیہ یہ رہی ہے کہ انبیاء پر اگر حربے ہوں تو وہ کارگر ہوں۔ بچانا اُس کا اصول نہیں ہے۔ تو یہ آخر کیوں بچایا؟ فدیہ کیوں بھیجا؟ وہ کہتا ہے : سنو! ہمارا مقصد تو ہے مثالِ قربانی پیش کرنا۔ یہ اس جملے کی شرح ہے جو میں کررہا ہوں۔ مقصد خالق کا ہے قربانی کی عظیم سے عظیم مثال پیش کرنا۔ اگر یہ انتہائے نقطہ قربانی ہوتا تو ہوجانے دیا ہوتا تاکہ قیامت تک کیلئے مثال رہے۔ فدیہ نہ بھیجا جاتا۔ لیکن چونکہ علم الٰہی میں ایک اس سے عظیم ترقربانی آنے والی تھی اور وہ عظیم تر قربانی اسی کی نسل میں آنے والی تھی، لہٰذا ضرورت تھی کہ اس وقت عبوری دَورِ دنیا میں ایک مثال قربانی کی عزم و جزم کی حد تک لاکر چھوڑ دی جائے تاکہ پھر وہ نسل آئے جو اس سے زیادہ قربانیوں کی تاریخ مرتب کرے گی۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی زادے کو عافیت پسندی کیلئے نہیں بچایا بلکہ قربانی کو بلند تر قربانی کی خاطر روکا گیا تاکہ وہ بلند تر قربانی آجائے۔ اس وقت اس بیان سے"حُسَیْنُ مِنِّیْ وَاَنَامِنَ الْحُسَیْنِ"کے ایک خاص معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ حسین مجھ سے ہے ، وہ تو نسبی طور پر، اور میں حسین سے ہوں، اگر حسین نہ ہوتے تو اسماعیل ذبح ہوگئے ہوتے یہ نسل ہی کب ہوتی۔تو اب میں’حُسَیْنُ مِنِّیْ وَاَنَامِنَ الْحُسَیْنِ"کا اُردو زبان میں ترجمہ کروں گا کہ حسین مجھ سے ہے ، یعنی میں نہ ہوتا تو حسین نہ ہوتے اور میں حسین سے ہوں یعنی حسین نہ ہوتے تو میں بھی نہ ہوتا۔

بس اہل عزا! اب اس سے الگ ایک خلش جو میرے دل کی تھی، وہ بھی دور ہوگئی۔ وہ خلش کیا تھی کہ اقبال نے تو ہمت کی شکوہ کرنے کی، ہر ایک کی ہمت نہیں ہوتی۔دل میں شکوے آتے ہیں، زبان سے کہنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ تو میرے تو ذہن میں تھا ایک احساس شکوہ کا پیدا ہوتا تھا کہ پروردگار! خلیل کے فرزند کا فدیہ بھیج دیا اور حبیب کے فرزند کا فدیہ تو نے نہیں بھیجا۔

اگر آپ محسوس کریں تو آپ کے ذہن میں بھی ، چاہے آپ اس کا اظہار نہ کریں۔ یہ خلش پیدا ہونی چاہئے تھی مگر میری گزشتہ تشریح کی بناء پر یہ خلش بھی ذہن سے دور ہوگئی۔ خلیل کے فرزند کا فدیہ آگیا، اس لئے کہ اس سے بالاتر درجہٴ قربانی اللہ کے علم میں تھا۔ حسین کا فدیہ نہ آیا، اس لئے کہ اس کے بعد اس سے اونچا درجہٴ قربانی اب علمِ الٰہی میں نہ تھا۔بس اب بابِ مصائب ہے۔

اربابِ عزا! وہ ہے قربانیِ اسماعیل اور یہ ہے قربانیِ حسین ۔ دیکھئے ! قربانیِ اسماعیل میں کس کا امتحان ہے؟ باپ کا امتحان ہے کہ وہ قربانی کررہا ہے۔ بیٹے کا امتحان ہے کہ وہ قربان ہورہا ہے۔ کربلا میں حسین بوقت ِ واحد خلیل بھی ہیں اور ذبیح بھی ہیں۔یہ ذبیح ہیں رسول اللہ کی نسبت سے کہ پیغمبر خدا کی طرف سے یہ دین کی طرف سے قربان ہورہے ہیں اور یہ خلیل ہیں اپنے علی اکبر اور اپنے علی اصغر کے لحاظ سے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ انہوں نے اٹھارہ اسماعیل راہِ خدا میں نذر کردئیے۔ کوئی کہے کہ کیا یہ سب اسماعیل تھے؟میں کہتا ہوں کہ میں کیا کروں؟ سید الساجدین علیہ السلام کی معصوم زبان پر عجیب جملہ ہے۔ جب منہال نے پوچھا کہ مولا کب تک گریہ کیجئے گا۔ تو سید ِسجاد نے فرمایا کہ یعقوب کے بارہ فرزند تھے، ایک فرزند نگاہ سے اوجھل ہوگیا تھا تو اتنا روئے کہ آنکھوں کی بصارت ختم ہوگئی اور میرے سامنے بس یہ جملہ ہے جو عرض کرنا ہے۔ پوری روایت اس وقت عرض نہیں کرنی ہے۔ فرماتے ہیں: میرے سامنے تو اٹھارہ جوانانِ ہاشمی و عقیلی و جعفری ، جن کی مثل و نظیر روئے زمین پر نہ تھی، وہ سب قربان ہوگئے تو میں گریہ نہ کروں؟

مصنف: علامہ سید علی نقی نقن اعلی اللہ مقامہ


متعلقہ تحریریں:

فلسفہٴ قربانی

فلسفہٴ خمس

 اسلام نے خمس کا حکم کیوں دیا ھے ؟

فلسفہ خمس دلایل مذھب شیعہ

خمس اھل سنت کی نظر میں