• صارفین کی تعداد :
  • 2893
  • 2/8/2011
  • تاريخ :

یہ مدینہ ہے (حصّہ چهارم)

جنت البقیع

آئیے دوسری جانب چلتے ہیں ۔ یہ جس مزار پر سیاہ پتھر نظر آ رہا ہے۔ یہ امام سجاد کا مزار ہے۔  ذہن میں ایک بخار میں تپتے ہوئے نحیف انسان کی تصویر ابھرتی ہے جو خیمے سے باہر بکل رہا ہے گرتا ہو سنبھلتا ہوا قتل گاہ کے نشیب کی طرف جانا چاہتا ہے ۔ اچانک کچھ دھول اڑتی ہے اور کوئی سوار دکھتا ہے جو نشیب میں طواف کر رہا ہے ۔ پھوپھی جان زینب سلام اﷲ علیہا آواز دیتی ہیں ۔ بیٹا تم دیکھ رہے ہو نا ! یہ جبرئیل ہے جو تمہارے بابا کی مصیبت میں سوگوار ہے!! ایک اور تصویر پردئہ ذہن پر نمایاں ہوتی ہے قافلہ مدینہ واپس پہونچ گیا ہے اور ہمارا یہ امام کربلا میں مسلے گئے پھولوں کا داغ اپنے سینے میں یوں لئے ہے کوئی بات کرتا ہے تو دل کا گداز اشک اور آہوں کے ہمراہ باہر آ جاتا ہے کیا آپ نہیں چاہتے کہ اپنے امام ہی کے مثل پا برہنہ بقیع میں داخل ہوں ؟!!کربلا میں آپ صرف 20 سال تھے اور بیمار تھے لیکن جہاد کا عز م پھر بھی دل میں اتنا تھا کہ زینب نے مقتل میں جانے سے روکا کہتے ہیں امام سجاد اپنے بابا علی کی طرح تھے امام باقر سے نقل ہوا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو خضوع و خشوع کا عالم یہ تھا کہ جسم پہ لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔

فلسفہ اور دعاء میں آپ کی نظیر نہیں تھی ۔ واقعہ حرہ میں جب سپاہ یزید نے مدینہ پر یلغار کی وہاں کے لوگوں کا قتل عام کیا تویہ آپکی ہیبت کا اثر تھا کہ کسی کو آپکے ساتھ کچھ ناروا سلوک کرنے کی جرائت بھی نہ ہوئی ۔

یہ تیسری قبر امام سجاد ہی کے بیٹے جناب امام باقر علیہ السلام کی ہے شیعوں کے پانچویں امام محمد بن علی باقر العلوم علوم کے آبگینہ کو شکافتہ کرنے والے آپ وارث علم نبی ہیں۔ آپ حقیقت شریعت کو عصری تقاضوں کے ساتھ بیان کرتے تھے ۔

آپ وہ امام ہیں جو عھد طفولیت سے ہی دردو محن سے آشنا رہے ۔ اسیران کربلا کے قافلے میں ننھے ننھے قدموں کے ساتھ پا پرہنہ دوڑ رہے تھے۔ وہ امام جنہوں نے اپنی پوری زندگی کربلا کی تعلیمات کو عام کرنے میں گزار دی ۔ معرفت کا وہ بحر ذخار بنی نوع بشر کے سامنے پیش کیا کہ تشنہ کاموں کو ٹھنڈک تو کشتی نشینوں کو ساحل نجات کی رہنمائی ملی ۔

آپ نے جن احادیث کو اپنے جد کے واسطے سے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا انہیں مرتب کیا اور اسکے لئے شاگرد اساتذہ اور حفاظ کو تربیت کیا ۔ علمی میدان میں مکتب تشیع کی توسیع آپ کے کارناموں کی بنا پر اس راہ پر گامزن ہوئی کہ امام صادق نے اسی پر عمل کرتے ہوئے علمی اور عملی ابتکارات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا  ۔

چوتھی قبر امام جعفر صادق سے متعلق ہے؛ وہ شخصیت جس کی درایت و علم کا چرچا جہان اسلام اور دیگر ادیان و مذاہب میں زبان زد ہے ؛حقائق کا مروج دین کی باریک گھتیوں کو سلجھانے والافقہ جعفری کا ناشر ۔

کیا آپکے دل میں درد نہیں ہوتا کہ دنیا کے ہر گوشے میں ہر دانشور اور فنکار کے علم اور ہنر کے سامنے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کے ذوق ہنر و فن کو سراہا جاتا ہے مرنے کے بعد اسکے مزار کو مرکز احترام جانا جاتا ہے لیکن یہاں آپ اس عظیم شخصیت کے بے سایہ مزار سے چند قدم نزدیک بھی نہیں ہو سکتے ۔

یہ وہ شخصیت ہے جسکی فلاسفہ عصر سے گفتگو کے قصے اور عظیم المرتبت شاگردوں کی تربیت کافی حد تک اس کی شخصیت کی معر ف ہے ۔

آپ کے زمانے کے بڑے بڑے فقہا آپ کے حضور فیض حاصل کرتے تھے اور خود پھولے نہیں سماتے تھے کہ آپ کی شاگردی کے مقام پر خود کو فائز پاتے تھے ۔

جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں ایک اہم اور قطعی مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی قبر مخفی ہے اور آپ کے واقعی محل دفن کے سلسلہ میں شیعہ اور سنی محققین کے مختلف اقوال اور مستندات موجود ہیں

لیکن آپکی قبر مطہر کے مخفی رہنے کا سب سے اہم سبب آپ کی وصیت اور اس بات کی تاکید ہے کہ آپ کے جسم مطہر کو رات کی تاریکی میں دفن کیا جائے ۔بعض روایات کے مطابق حضرت علی نے 40 قبروں پر بقیع میں پانی کا چھڑ کا ئو کیا اور 7 طرح کی قبریں تیار کیں تاکہ حضرت کی قبر کسی بھی طرح پہچانی نہ جا سکے ۔

بہر کیف! حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا مطہر جسد مخفی طور پر حضرت علی نے سپرد خاک کر دیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں جناب فاطمہ کی قبر بقیع میں واقع ہے اور کچھ لوگ یہ باور کرتے ہیں کہ آپ کی قبر آپ کے گھر میں ہے بعض دوسرے لوگ آپکی قبر کے سلسلہ میں یہ احتمال دیتے ہیں آپ کی قبر مسجد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم میں حضور کے گھر اور قبر کے درمیانی حصہ میں ہے ۔

بشکریہ الحج ڈاٹ او آر جی


متعلقہ تحریریں :

پاکستان کے شہر " پشاور "  میں واقع اہم مقامات

کیا مغربی ممالک میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے؟

منہ زوري کے نتائج

امریکي اہداف

مغربی دنیا کے دلفریب نعر ے