• صارفین کی تعداد :
  • 3987
  • 1/16/2011
  • تاريخ :

بچہ اور ریڈیو ٹى وی

بچہ اور ریڈیو ٹى وی

ریڈیوی، ٹیلى وین اور سینما بہت ہى سودمند ایجادات ہیں ان کے ذریعے سے تعلیم و تربیت کى جاسکتى ہے لوگوں کے افکار کو جلا بخشى جا سکتى ہے دینى واخلاقى اقدار کو رائج کیا جا سکتا ہے زرعى اور صنعتى شعبوں میں راہنمائی کى جا سکتى ہے صحت و صفائی کے امور پر رشد پیدا کیا جا سکتا ہے سیاسى اور سماجى حوالے سے عوام کى سطح معلومات کو بلند کیا جا سکتا ہے انسان عوامى رابطے کے ان وسائل سے سینکڑوں قسم کے فائدے اٹھا سکتا ہے البتہیہ وسائل جسقدر مفید ہوسکتے ہیں اسى قدر ان سے سوء استفادہ بھى کیا جا سکتا ہے اگر یہ وسائل نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں آجائیں تو وہ غلط راستے پر ڈال دیں گے اور ان کے ذریعے سے عوام کو صحت، ثقافت ، دین ، اخلاق، اقتصاد اور سیاست کے حوالے سے سینکڑوں قسم کے نقصانات پہنچائیں گے ریڈیو اور ٹى وى تقریباً عمومى حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اب ہرگھر میں جا پہنچا ہے بیشتر لوگ اسے ایک تفریح اور مشغولیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور انہیں دیکھنا اور سننا پسند کرتے ہیں خصوصاً بچے اور نوجواں ان سے بہت دلچسپى کا اظہار کرتے ہیں باخبر لوگوں کى رائے کے مطابق ایرانى بچے امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جاپان جیسے ترقى یافتہ ملکوں کے بچوں کى نسبت ٹیلى ویژن کے پروگراموں سے زیادہ دلچپسى رکھتے ہیں

ایران میں 207 کے ناظریں میں سے چالیس فیصد بچے ہیں، تیس فیصد نوجوان ہیں

 جب کہ بچپن اور نوجوانى کى عمر تعلیم و تربیت کے اعتبار سے حساس ترین دور ہوتا ہے ریڈیو ٹیلى ویژن کے پروگرام اچھے ہوں یا برے بلا شک ان کى حساس روح پر بہت اثر کرتے ہیں اور انہیں سطحى اور بے اثر نہیں سمجھنا چاہیے بچّے کو آزادى نہیں دى جا سکتى کہ وہ ہر طرح کا پروگرام دیکھے یا سنے کیونکہ بعض پروگرام بچے کے لیے نقصان وہ ہوتے ہیں کاش ریڈیواور 207 کے اہل کار یہ جانیں کہ وہ کس حساس منصب پر کام کررہے ہیں اور کتنى عظم ذمہ دارى ان کے دوش پر ہے افراد ملت خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کى تعلیم و تربیت کا بڑا حصّہ انہیں کے ذمہ ہے ماں باپ بھى اسسلسلے میں لا تعلق نہیں رہ سکتے اور بچوں کو ہر طرح کا پروگرام سننے اور دیکھنے کى اجازت نہیں دے سکتے ریڈیو، 207 کے پروگراموں کا یاک حصہ ایسى کہانیوں اور فلموں پر مشتمل ہوتا ہے جسمیں قتل ، ڈاکلہ ، چورى ، جرم ، اغوائ، لڑائی جھگڑا، تشدد، فریب ، دھوکا و غیرہ جیسى چیزیں شامل ہوتى ہیں بچے ایسى کہانیوں اور فلموں کے شوقیں ہوتے ہیں اور ان سے بہت لطف اٹھاتے ہیں جب کہ ایسى فلمیں اور کہانیاں بچوں کے لیے کئی جہات سے نقصان وہ ہیں مثلاً 1بچوں کى حساس اور لطیف روح کو بڑى شدت سے تحریک کرتى ہیں ہوسکتا ہے کہ ان کى وجہ سے بچوں کے اندر ایک اضطراب اور خوف ووحشت کى کیفیت پیدا ہوجائے ہوسکتا ہے وہ رات کو ڈراؤنے خواب دیکھیں اور سوتے میں چیخ ماریں ہوسکتا ہے انیہں سردرد لاحق ہوجائے اور یہاں تک ممکن ہے کہ وہ ایسى فلمیں دیکھتے ہوئے بے ہوش ہوجائیں یا ان پر سکتہ طارى ہوجائے ایسى فلموں سے ہوسکتا ہے کہ اخلاق کے حوالے سے نقصان وہ اثرات مرتب ہوں اور بچوں کى پاک طبیعت کو وہ گناہ اور برائیوں کى طرف کھینچ لائیں ہوسکتا ہے کہ بچے ان سے اس قدر متاثر ہوں کہ ان کے ہیرو کى تقلید کریں اور جرم ، تقل اور چورى کرنے لگیں یونسکو نے اس سلسلے میں جو تفصیل جارى کى ہے اس کے مطابق اسپین میں 1944 سے لے کر 1953 ء تک سزا پانے والے بچوں میں سے 37 فیصد نے جرائم پر مبنى فلموں سے متاثر ہوکر جرم کیا ہے امریکہ میں وسیع پیمانے پر ہونے والى تحقیقات کے مطابق مجرم بچوں میں سے دس فیصد لڑکے اور پچیس فیصد لڑکیاں جرائم سے بھر پور فلمین دیکھ کر مجرم بنتى ہیں یہ اعداد شمار واقعاً ہلاکررکھ دینے والے ہیں

بلامرد پازرکے نظریے کے مطابق 49 / مجرم فلموں سے متاثر ہوکر اپنے ساتھ اسلحہ رکھتے ہیں 28 / چورى کرنے اور 21 / فیصد قانون کى گرفت سے بھاگنے اور پولیس کو چکّردینے کے طریقہ انہى فلموں سے سیکھتے ہیں تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ 25 / عورتیں برى فلموں کے زیرا اثر برائی اور بدکارى کى راہ پر چل پڑى ہیں نیز 54 / عورتیں پلا پرواہ فلمى ستاروں کى تقلید میں قحبسہ خانوں اور برائی کى محفلوں کى زینت( بنى ہیں)

یونیورسٹى لاس اینجلز کے ایک پروفیسر واکسمین کہتے ہیں:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹى وى کى سکرین سے نکلنے والى الیکٹرک مقناطیسى لہریں انسانى آرگنزم پر بہت اثر کرتى ہیں ٹیلى وین یا رڈاریا گھریلو ضرورت کى بجلى کى چیزوں سے نکلنے والى لہریں شارٹ ویوز کى قسم میں سے ہیں اور اس کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کے سر میں درد ہوتا ہے اور سر چکرانے لگتا ہے اس سے انسان کى فکرى صلاحیت کم ہوجاتى ہے خون کا دباؤ تبدیل ہوجاتا ہے طبیعت میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور خون کے سفید خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے علاوہ ازیں یہ لہریں انسان کے نظام ، اعصاب پر بہت برا اثر ڈالتى ہیں اور مختلف بیماریوں کا سبب بن جاتى ہیں

ڈاکٹر الکسنر کارل لکھٹے ہیں:

 ریڈیو ٹى وى اور نامناسب کھیل ہمارے بچوں کے جذبات کو تباہ کر دیتے ہیں

روزنامہ اطلاعات اپنے شمارہ 15743 میں ایک یورپى طالب علم کے بارے میں لکھتا ہے:

کالج کے ایک اٹھارہ سالہ طالب علم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیشکیا گیا اس پر الزام ہے کہ اس نے ایک فلمى اداکار والٹر کا تائر کے بیٹے اغوا کیا اور پھر دھمکى دى کہ اسے ایک لاکھ پچاسہزار ڈالر پہنچادیے جائیں ورنہ وہ اسے قتل کردے گا ملزم نے عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ قتل کى دھمکى دے کر غنڈہ ٹیکسوصول کرنے کا خیل اس کے ذہن میں ٹیلى وین کى ایک فلم دیکھتے ہوئے پیدا ہوا اس سلسلے میں پولى کا کہنا یہ ہے کہ ایسے بہت سے کیسہمارے پاس پہنچے ہیں کہ نوجوانوں نے ٹیلى وین سے جرم کا ارتکاب کرنا سیکھا ہے مشہد میں ایک دس سالہ بچے نے کراٹے کى ایک فلم دیکھنے کے بعد اپنے آٹھ سالہ دوست کو کک مارکر مارڈالا

تعلیم و تربیت کے نائب وزیر جناب صفى نیا کہتے ہیں:

 جب ٹى وى برائی کا درس دے رہا ہو تو بہترین استاد بھى کچھ نہیں کرسکتا

کیوبا کے ایک پندرہ سالہ لڑکے رونے زامورانے ایک 83 سالہ بوڑھى عورت کو قتل کردیا اس نے یہ جرم فلوریڈ میں انجام دیا اور اب وہ اس شہر کى ایک جیل میں اس جرم کى سزا کے طور پر عمر قید کاٹ رہا ہے اس کے والدین نے امریکى ٹیلى وین کے تین چینلوں کے خلاف دوکروڑ پچاس لاکھ ڈالر ہر جانے کا دعوى دائر کیا ہے انہوں نے عدالت میں اپنے دعوى کے ثبوت میں جو شواہد پیشکیے ہیں ان کے مطابق بچے نے آدم کشى کا سبق اسى ٹیلى وین کے پروگراموں سے سیکھا ہے گذشتہ ستمبر عدالت میں اس کیس کى سماعت ہوئی اس موقع پر یہ بات سامنے آئی کہ ملزم جب بچہ تھا تو آیا اسے چپ کرانے کے لیے ٹى وى کے سامنے بٹھادیتى اسسے اس میں ٹیلى وین دیکھنے کا بہت شوق پیدا ہوگیا وہ روزانہ آٹھ اٹھ گھنٹے تیلى وین پروگرامم دیکھتا رہتا اسے ٹى وى کے پروگراموں سے بہت دلچسپى پیدا ہوگئی خاص طور پر '' پلیس کو جاک'' نامى سیریز سے وہ بہت متاثر تھا ارتکاب جرم سے ایک رات پہلے اس فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح سے ایک امیر عورت کو لوٹا گیا ایک لڑکى جس کا نام رضائیہ تھا پندرہ سال اس کى عمر تھى بہت خوبصورت لڑکى تھى ٹیلى وین پر ایک پر ہیجان فلم دیکھتے ہوئے اس پر اسقدر اثر ہو اکہ وہ زمین پرى گرى اور مرگئی جب اس نے فلم میں دیکھا کہ ایک سفید فام شخص ایک سیاہ فام کے سر کى چمڑى ادھیڑنے لگا ہے تو اس نے ایک چیخ مارى پھر اس کے دل کى دھڑکن بند ہوگئی ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے دماغ کى رگ پھٹ گئی

اعصاب اور نفسیات کے ماہر ڈاکٹر جلال بریمانى کہتے ہیں: خوف ناک، ڈراؤنى اور ہیجان انگیز فلمیں بچوں کى نفسیات پر نامطلوب اثر ڈالتى ہیں ہم نے دیکھا ہے کہ ایک بچہ ماردھاڑسے بھر پور فلم دیکھنے کے بعد فلم کے ہیر و کى تقلید میں اپنے چھوٹے بھائی یا بہن کو قتل کردیتا ہے ایسى فلمیں بچے کى آئندہ شخصیت پر برے اثرات مرتب کرتى ہیں خوفناک فلموں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برے ہوکر ان کے اندر بزدلى پیدا ہوجاتى ہے ، مارڈھاڑ کى فلمیں آئندہ کى زندگى میں انہیں بھى ایسا ہى بنادیتى ہیں ان کے اثرات انسان کى روح پر رہتے ہیں اور پھر جہاں موقع ملتا ہے کسى غلط واقع کى صورت میں نمودار ہوتے ہیں اور انسان کو برائی کى طرف کھینتے ہیں نفسیات کے ڈاکٹر شکر الله طریقتى کہتے ہیں: برى فلموں کا اثر بچے کے مستقبل پر ناقابل انکار ہے یہ فلمیں بچوں کى نفسیات پر ایسا نامطلوب اثر ڈالتى ہیں کا بالغ ہوکر جب مناسب موقع ملتا ہے اور دوسرے اسباب بھى فراہم ہوجاتے ہیں تو وہ خطرناک کاموں کى انجام دہى کى صورت میں اس کى مدد کرتا ہے لہذا میں ماں باپ و نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کوہرگز اجازت نہ دیں کہ وہ غلط فلمیں دیکھیں خاص طور پر وہ فلمیں جو بڑوں کے لیے مخصوص ہیں خصوصاًرات کے دس بجے کے بعد آنے والى فلموں کى اجازت نہ دیں اگر بچے ایسى فلمیں دیکھنے کے لیے ضد کریں اور والدین انہیں اس کى اجازت نہ دیں تو اولاد کے حق میں یہى ان کى محبت ہے تہران یونیورسٹى کے ایک استاد اور جرم شناسى ڈاکٹر رضا مظلومى کہتے ہیں:

ٹیلى ویژن اور سینما گھروں میں دکھائی جانے والى بہت سى فلمیں ہمارے معاشرے کے لیے خطرناک ہیں ان کے خطرات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ گیارہ سالہ بچى کو انہوں نے زندگى سے محروم کردیا اور اس کےدل کى دھڑکن کو بند میں جرات مندى کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ عصر حاضر میں ہونے والے بہت سے جرائم اور ( مظالم انہیں فلموں کے برے اثرات کى وجہ ہیں )

نیویارک کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر آرنالڈ فریمانى نے جدیدترین الیکٹرانک آلات اور تجربات سے یہ ثابت کیا ہے روحانى اور فکرى کمزورى اور شدید سردرد ریڈیوپر نشر ہونے والى موسیقى کے سننے سے پیدا ہوتے ہیں

اخبار ٹائمز اپنے 1964 کے شمارہ میں لکھتا ہے:

بچوں کى بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر نے فضائیہ کى دو چھاؤنیوں میں اسبات کو محسوس کیا کہ اس علاقے میں کام کرنے والے افسران کے بچے کہ جن کى عمر 3 سال سے بارہ سال کے درمیان ہے ہمیشہ دردسر، بے خوابى ، معدہ کى گڑبڑ، قے پیچشاور دیگر بیماریوں میں گھرے رہتے ہیں طبى نقطہ نظر سے اس بیمارى کى کوئی وجہ معلوم نہ ہوئی لیکن مکمل طور پر تحقیق کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ تمامبچے ٹیلى وین کے طویل پروگرام دیکھنے کے عادى ہیں اور ہر روز 3 گھنٹے سے 4 گھنٹے تک ٹى وى پروگرام دیکھتے ہیں ڈاکٹروں نے ان کے لیے صرف یہى علاح متعین کیا کہ ان کوئی وى پروگرام دیکھنے کى اجازت ( نہ دى جائے یہ علاج کیا اور مؤثر بھى رہا سردرد ، قے ، پیچشاور باقى تمام بیماریاں ختم ہوگئیں

لہذا جن والدین کو اپنے بچوں سے محبت ہے وہ انہیں دن رات ریڈیو اور ٹیلى وین سننے اور دیکھنے کى اجازت نہ دیں صرف ان پروگراموں کو دیکھنے کى اجازت دیں جن سے بچوں کو کوئی نفسیاتى ، روحانى اور اخلاقى نقصان نہ پہنچے .

بشکریہ :  مکارم شیرازی ڈاٹ او آر جی


متعلقہ تحریریں:

ديرپا رشتوں کا اثر

ہمارے معاشرے میں  جہیز ایک المیہ

اسلام  میں طلاق

دنيا ميں ’’خانداني‘‘ بحران کي اصل وجہ!

بیٹی  رحمت ہے