• صارفین کی تعداد :
  • 5749
  • 10/26/2010
  • تاريخ :

آٹے کا تھیلہ

بچہ

"شہباز!" باورچی خانے سے امی کی آواز آئی۔ میں گھر کے پچھواڑے میں گیند سے کھیل رہا تھا، ان کی آواز سن کر رک گیا۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ امی نے کس لیے بلایا ہے۔

"شہباز، کدھر ہو؟" امی کی آواز میں مجھے وہ سختی محسوس ہوئی جو کٹہرے میں کھڑے ملزم سے سوال کرتے ہوئے وکیل کی آواز میں ہوتی ہے۔ تیسری بار آواز آئی تو میں نے آہستہ آہستہ گھر کے دروازے کی جانب چلنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی میں یہ بھی سوچنے لگا کہ امی کو کیا جواب دوں گا۔ دروازے کے ساتھ ہی بائیں جانب باورچی خانہ تھا، جہاں امی چوکی پر بیٹھی تھیں۔

"جی؟" میں دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور نظریں اپنے ننگے پاؤں پر گاڑ دیں، جن پر مٹی جمی ہوئی تھی۔

"آٹے کے تھیلے کہاں گئے؟" امی کے لہجے میں ابھی تک تھانیداروں والی سختی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جھوٹ بولتا، امی خود ہی بول پڑیں: "دے آیا ہے نا بابا جی کو!"

ہمارے گھر سے شہر کی جانب جانے والی سڑک پر بابا جی کی دکان تھی۔ کچھ عرصہ پہلے بابا جی نے ایک اسکیم شروع کی تھی۔ وہ آٹے کے دس خالی تھیلوں کے بدلے ایک بڑا سا چاکلیٹ دیتے تھے۔ امی کے پاس دس تھیلے پڑے تو تھے، لیکن ان میں سے ایک میں چھوٹا سا سوراخ تھا۔ امی نے کہا تھا کہ ایک اور تھیلا خالی ہونے کا انتظار کروں، مگر اس میں نہ جانے کتنے دن اور لگ جاتے۔ دس کلو آٹا آخر کم تو نہیں ہوتا۔ کل مجھ سے صبر نہیں ہوا۔ میں نے پھٹے ہوئے تھیلے سمیت دس تھیلے امی کی نظر بچا کر اٹھائے، انہیں تہ کیا اور بابا جی کی دکان پر لے گیا۔

بابا جی کی نظر بہت کمزور تھی۔ موٹے موٹے شیشوں والی عینک لگاتے تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ انہیں تھیلے میں سوراخ نظر نہیں آئے گا۔ پھر بھی تھیلے ان کی میز پر رکھتے ہوئے میرا دل دھڑک رہا تھا۔ بابا جی نے ایک نظر تھیلوں پر ڈالی، ان کو گنا اور ایک کونے میں رکھ دیا، پھر مرتبان میں سے چاکلیٹ نکال کر مجھے دے دیا۔ میں اپنی کامیابی پر بہت خوش ہوا اور راستے بھر چاکلیٹ کھاتا ہوا گھر لوٹ آیا۔

مگر اب امی نے میری چوری پکڑ لی تھی اور ان کے سامنے جھوٹ بولنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ نہ جانے کیسے انہیں میرے دل کی بات معلوم ہو جاتی تھی؟

امی نے حکم سنا دیا: "جاؤ ابھی بابا جی کے پاس، ان کو یہ نیا تھیلا دے آؤ۔ اس کا آٹا میں نے پیٹی میں ڈال لیا ہے۔ اور اپنی حرکت کی معافی بھی مانگو۔" میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ آنسو فوراً ہی آنکھوں میں امڈ آئے۔

"امی، مجھے جو مرضی سزا دے دیں، مگر میں بابا جی سے معافی نہیں مانگ سکتا۔ سب کے سامنے ۔۔۔۔۔" اس سے آگے میری بات رونے کی آواز میں گم ہوگئی۔

"غلطی کی ہے تو معافی مانگو۔ شرم آنی چاہیے تمہیں! بے چارے بابا جی کو دکھائی نہیں دیتا اور تم نے ان کو دھوکا دیا!" امی نے مجھے میری غلطی کا احساس دلانے کی کوشش کی مگر یہ تصور کرکے ہی میری تو جان نکلی جا رہی تھی کہ دکان میں اتنے سارے گاہکوں کے سامنے بابا جی کو اپنی غلطی بتانی پڑے گی۔

"معافی مانگنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔" میں نے سوچا۔

مگر امی کے سامنے میری ایک نہ چلی۔ میں آنسو بہاتا اور انہیں پونچھتا گھر سے نکل کھڑا ہوا۔

دوپہر کی گرمی ابھی تک برقرار تھی۔ آسمان پر مئی کا سورج چمک رہا تھا اور ہوا بھی بند تھی۔ کھیتوں کے درمیان تنگ سی سڑک گرد سے اٹی پڑی تھی۔ میں خود کو دنیا کا بد قسمت ترین شخص سمجھتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ مجھے امی پر سخت غصہ آرہا تھا۔ سوچنے لگا، بس حکم سنا دیتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ فوراً بجا لایا جائے۔ آخر میرے ماں باپ ایسے کیوں ہیں؟ اور بچے بھی تو بے ایمانی کرتے ہیں، ان پر تو کوئی سختی نہیں کرتا۔ دل میں آیا کہ کھیتوں کے پرے جو پہاڑیاں ہیں ان میں چلا جاؤں اور کبھی لوٹ کر نہ آؤں پھر امی مجھے یاد کریں گی اور پچھتائیں گی کہ مجھ پر کیوں ظلم کیا۔ مگر اس کی بھی ہمت نہ پڑی۔

دور سے بابا جی کی تنہا سی دکان دکھائی دی تو میر ی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ سوچا، تھوڑی دیر ادھر ادھر گزار کر گھر چلا جاؤں اور امی سے جھوٹ بول دوں کہ میں بابا جی سے معافی مانگ آیا ہوں لیکن اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور پکڑا جاؤں گا۔ دکان میں داخل ہوا تو اتنے سارے گاہکوں کو دیکھ کر میری فکر بڑھ گئی۔ یہ سب میرا تماشا دیکھیں گے۔ میں ایک طرف کھڑا ہو گیا اور سب کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ بابا جی نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور گاہکوں کو سودا دینے میں مصروف ہو گئے۔ ہزاروں طرح کی سوچیں میرے دماغ میں بھگدڑ مچا نے لگیں۔

خدا خدا کرکے سب گاہک دکان سے نکل گئے۔ بابا جی نے اپنی عینک کے اوپر سے مجھے دیکھا۔ "کیوں بھئی شہباز بیٹا، کیا چاہیے؟"

امتحان کا لمحہ آن پہنچا۔ میں نے چند قدم آگے کی جانب لیے۔

"وہ۔۔۔۔۔ دراصل۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ امی ایک تھیلا!" میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اپنی چوری کی بات زبان پر لاؤں۔

"پھٹے ہوئے تھیلے کا بتانے آئے ہو نا؟" بابا جی مسکراتے ہوئے بولے۔ میں حیران رہ گیا کہ بابا جی کو سب پتا تھا۔

" وہ۔۔۔۔۔ امی نے مجھے کہا تھا کہ۔۔۔۔۔"

"تمہاری امی بہت عظیم خاتون ہیں۔۔۔۔۔اور ایک اچھی ماں بھی۔"

میں ابھی تک حیران تھا۔ سوچنے لگا کہ اب آگے کیا ہوگا۔ "یہ تھیلا!" میں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔

"یہ تم میری طرف سے انعام سمجھ کر رکھ لو، اپنی بہادری کا انعام۔ تاکہ اگلی دفعہ دس تھیلے جمع کرنے کے لیے تمہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ معافی مانگنے والا بڑا بہادر ہوتا ہے۔ مگر یہ ضرور یاد رکھنا کہ تمہیں بہادر بنایا کس نے؟"

بابا جی کی دکان سے گھر لوٹتے ہوئے سورج کی تپش میں خاصی کمی آچکی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور سڑک کی دونوں جانب گندم کے کھیت گویا مستی میں سر دھن رہے تھے۔

تحریر : سہیل احمد


متعلقہ تحریریں :

ایک ہاتھی- ایک چیونٹی

لالچی چیونٹی

جادو کا موتی

جادو کا موتی (حصّہ دوّم)

مجھے ہاتھی خریدنا ہے (حصّہ اوّل)

مجھے ہاتھی خریدنا  ہے (حصّہ دوّم)

شیخ چلی

مظلوم گدها اور نعل بند بهیڑیا

كوّا اور كبوتر

شیر اور کتا