• صارفین کی تعداد :
  • 2346
  • 10/3/2010
  • تاريخ :

سید ابن طاؤوس اور شکوہ

بسم الله الرحمن الرحیم

۱۰/صفر ۶۵۶ھ کو مغل حاکم نے سید ابن طاؤوس کو بلایاان کے اور ساتھیوں کے لئے عمومی امان نامہ دے دیا سید ابن طاؤوس جو مومنین کی جان کے فکر مند تھے (۱۰۰۰) ایک ہزار لوگوں کو جمع کیا ہلاکو خان کی حمایت سے حلہ کی جانب روانہ ہوئے جب صحیح و سالم حلہ پہونچ گئے تو آپ نے نماز شکرانہ پڑھی اور نذر کی کہ ہر سال آج کے دن دو رکعت نماز شکرانہ پڑھیں گے۔

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ وہ حلہ میں رہنے کا قصد نہیں رکھتے تھے بلکہ زیادہ فکر بغداد کی تھی چنانچہ دوبارہ بغداد آگئے تاکہ زیادہ سے زیادہ مومنین کو نجات دلا سکیں۔

اب ہلاکو خان نے آپ سے درخواست کی کہ آپ شیعیان علی  کے لئے نقابت کے منصب کو قبول کریں ۔ آپ نے عذر ظا ہر کیا کہ ہلاکو خان کے ایلچی سے کہا کہ : ” میں نقابت کے منصب کو قبول نہیں کرسکتا۔“ جب ہلاکوخان کا نامہ برہلاکو کے پاس آیا کہ سید ابن طاؤوس کے انکار کا ذکر کرے تو اس وقت خواجہ نصیر الدین طوسیٰ (محمد بن الحسن الطوسی ، طوس میں پیداہوئے بلند علمی مقام حاصل کیا۔)جو ابن طاؤوس کے دوست اور ہم کلاس بھی تھے، نے فورا نامہ بر سے کہا کہ :

”تم سید کے منفی جواب کو ہلاکو خان سے نقل نہ کرو میں سید ابن طاؤوس سے خود بات کروں گا۔“

خواجہ نصیر الدین طوسی نے آپ سے ملاقات کی اور اس طرح گفتگو کی کہ سید ابن طاؤوس نے مثبت جواب دیا ۔ خواجہ ہلاکو خان کے نامہ بر کے یہاں آئے اور کہا کہ:

”ہلاکو خان سے جا کر کہہ دو کہ سید ابن طاؤوس نے نقابت کے منصب کو قبول کر لیا ہے۔“

سید ابن طاؤوس کے اس مقام کو قبول کرلینے سے بادشاہ کے دربار میں ایک خاص اثر و رسوخ قائم ہوگیا آپ اپنے گھر میں سبز لباس پہنے بیٹھے مومنین جوق در جوق مبارک باد کے لئے آتے رہے اورتجدید عہد کرتے رہے۔ شاعروں نے آپ کی مدح سرائی کی علی ابن حمزہ نے اپنے قصیدہ میں اس طرح بیان کیا :

”یہ رضی الدین علی ابن ابو ابراہیم موسی ہیں جو اپنے دادا امام ہشتم علی رضا علیہ السلام سے مشابہ ہیں امام رضا علیہ السلام نے سبز لباس پہن کر لوگوں کے سامنے امامت ظا ہر کی اور سید ابن طاؤوس نے بھی سبز لباس پہن کر شیعیان علی کے لئے مقام نقابت قبول کیا۔“(۱۸/ذی الحجہ ۶۷۲ھ بغداد میں رحلت کی رحلت کے وقت آپ سے سوال کیا گیا : ”کیا آپ کے جنازے کو نجف اشرف منتقل کریں؟“ آپ نے جواب دیا : ”مجھے ایسی وصیت کرتے ہوئے امام موسیٰ  ابن جعفر  سے شرم آتی ہے ۔“ اس عالم کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے لئے ”عظیم شخصیتیں “مجموعہ کی طرف رجوع کریں ۔“

آخری پرواز

آپ کے منصب تقابت قبول کرنے سے مومنین نے بڑے پیمانہ پر خوشیاں ماہئیں لوگوں کے دلوں میں وہ منظر آگای جب امام رضا علیہ السلام نے مقام ولی عہدی قبول کر کے خراسان کا سفر کیا تھا لیکن افسوس کہ مومنین کی یہ خوشی زیادہ دنوں تک نہ رہ سکی صرف تین ہی سال بعد آپ کے اوپر بیماری کے آثار نمایاں ہوئے دوست و احباب پریشان ہوگئے بیماری روز بروز بڑھتی گئی ۵/ ذی الحجہ پیر کے دن ۶۶۴مومنین کے اوپر مصیبت عظمیٰ آپڑی آپ نے ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے آنکھیں بند کر کے بلندی کی جانب سفر شروع کر دیا۔

چاروں طرف سے شیعیان علی  بغداد میں جمع ہونے لگے آپ کے جنازہ کو نجف اشرف لے گئے غسل کے بعد آپ کو وہ کفن دیا گیا جو عرفات مسجد الحرام، مسجد النبی اور دوسرے مقامات مقدسہ سے متبرک ہوا تھا۔

آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے دہن میں وہ عقیق رکھا گیا جس پر ائمہ  ہدی و خد وند عالم کا نام نقش تھا مومنین کے گریہ و زاری اور لا الہ الا اللہ کے نعرہ میں آپ کو خاک نجف اشرف کے حوالے کیا گیا ۔

اسلام ان اردو ڈاٹ کام


  متعلقہ تحریریں:

 سید ابن طاؤوس  اور شب جمعہ کا راز

سید ابن طاؤوس  اور  وزارت شب

سید ابن طاؤوس  اور  پراسرار سفر

سید ابن طاؤوس اور عرفات کا تحفہ

سید ابن طاؤوس اور دشت سامراکے سوار

سید ابن طاؤوس اور  بیمار ہر قل

سید ابن طاؤوس اور اشک ابو جعفر (مسنتصر)

سید ابن طاؤوس اور  ندیم ابلیس

سید ابن طاؤوس اور شہر پر فریب پایہ تخت شیطان

سید ابن طاؤوس (علماء سے ارتباط)