• صارفین کی تعداد :
  • 2344
  • 9/5/2010
  • تاريخ :

ایرانی ادبیات کی قدر و قیمت

فارسی
ایرانی ادبیات کی تاریخی قدروقیمت بھی ہے کیونکہ یہ ایران کے بےشمار عاقل ترین افراد کے اخلاق ، افکار ، آداب ، احساسات ،نصائع اور پند کا مجموعہ ہے جو صدیوں سے محفوظ ہے جو صدیوں سے محفوظ چلا آ رہا ہے اور ہم جو ان  کے اخلاف ہیں ۔ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔

٭ فارسی میں مدحیہ اور تعریفی قصیدوں کی زیادتی کی وجہ سے دوسرے اقسام نظم و نثر سے کہیں صرف نظر نہ کر لینا چاہیۓ ۔ ایسے بہت سے شاعر ہیں جو ایک مستقل مسلک اور ایک مقصد اپنے پیش نظر رکھتے تھے اور اپنے عالی مقاصد کے لیۓ شاعری کرتے تھے ۔ جیسے مذھبی عقائد میں ناصر خسرو ، صوفیانہ اور عرفانی مطالب میں شیخ عطار، شیخ شبستری، مولانا جلال الدین رومی  ، حافظ  و غیرہ ایسے بہت سے بزرگوں نے ایسی گراں بہا یادگاریں چھوڑی ہیں کہ قیامت تک ان پر زوال آنا ممکن نہیں ۔

مخصوص ادبی آثار کے سواء بھی قدیم زمانے سے ہمارے زمانے تک فارسی زبان میں بہت سی علمی ، فنی اور دینی کتابیں لکھی گئی ہیں اور ان میں سے ہر کتاب اپنے زمانے کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔

٭ ایرانی ادبیات زبان فارسی کی سب سے بڑی سند اور اس کی بہترین ضامن ہیں یہ ہمارے ملک اور ہر زمانے کے بڑے بڑے شاعروں کی طرز کی میزان ہے ۔ آج بھی گراں بہا آثار اور تصانیف ایک طرف ہماری زبان کے محافظ اور دوسری طرف ہمارے نۓ مصنفوں کے لیۓ نمونہ ہیں ۔ ہمارے بڑے بڑے شاعروں اور مصنفوں کی وجہ سے نہ صرف ہماری زبان تباہی سے بچ گئی بلکہ بہت سے فارسی الفاظ بھی اس وسیلہ سے محفوظ رہ گۓ ۔ اگر شاہنامہ یا شاعروں کے قصیدے یا غزلیں اور دوسری بہت سی نثری تصنیفیں اگر عالم وجود میں نہ آئی ہوتیں تو بہت سے فارسی الفاظ اور فارسی ترکیبیں ناپید ہو جاتییں اور ایک عامیانہ زبان کے سوا اور کچھ باقی نہ رہتا ۔

٭ بداعت اور اچھوتے پن کے لحاظ سے بھی ادبیات ایران کی اہمیت بہت زیادہ ہے یعنی ایران کے بزرگوں نے لطیف علمی اور اجتماعی معانی کو نہایت دلکش ،زیبا اور خوش آیندہ عبارت میں ادا کیا ہے ۔

جس طرح استخر فارس کی عمارتوں اور اصفہان کی مسجد شاہ میں ایرانی بداعت ، ذوق صنعت کاری اور حسن پرستی کی روح کا اظہار تناسب اور عظمت کی شکل میں اور اصفہان، مشہد اور اردبیل کی کاشی کاری میں رنگ آمیزی اور گلکاری اور ہم آہنگی کی صورت میں ہوا ہے اسی طرح دلکش فارسی اشعار میں یہی روح دلربا طرز سخن پیوند نظم اور رعایت وزن و تناسب کی صورت میں ظہور پذیر  ہوئی ہے یہی چیز بے شائبہ تعلی ایرانی شاعروں اور ادیبوں کی سحر بیانی کی سب سے بڑی دلیل اور شاہد عادل ہے ۔

پیشکش: سیّد اسد الله ارسلان


 متعلقہ تحریریں:

عمر خیام اردو میں