سرچ
    سرچ کا طریقہ
    مرجع کا نام

احكام تقليد

احكام طہارت

احكام نماز

احكام نماز

روزے کے احکام

روزے کے احکام

احكام زکوٰۃ

احکام حج

خريد و فروخت کے احکام

احکام شرکت

احکام صلح

اجارہ (کرايہ ) کے احکام

احکام جعالہ

احکام مزارعہ

مساقات (آبياري ) کے احکام

احکام وکالت

قرض کے احکام

رہن کے احکام

ضامن بننے کے احکام

کفالت کے احکام

وديعت (امانت) کے احکام

عاريتاً دينے کے احکام

نکاح (شادي بياہ) کے احکام

طلاق کے احکام

غصب کے احکام

غصب کے احکام

جو مال انسان پالے اس کے احکام

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

کھانے پينے کي چيزوں کے احکام

نذر اور عہد کے احکام

قسم کھانے کے احکام

وقف کے احکام

وصيت کے احکام

ميراث کے احکام

احکام امر بالمعروف اور نہي عن...

دفاع کے مسائل و احکام

خاتمہ کے احکام

بعض مسائل جو اس زمانے ميں...

امام خميني کي خدمت ميں چند...

وہ اشخاص جو اپنے مال ميں خود...

حوالہ (ڈرافٹ) دينے کے احکام

1
لوگ جو کچھ بنک سے بعنوان قرض یا کسی اور عنوان سے لیتے ہیں جب کہ معاملہ شرعی طور پر انجام پذیر ہو تو حلال ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ اگرچہ وہ جانتا ہو کہ بینکوں میں حرام کا پیسہ ہے یا اسے احتمال ہو کہ جو رقم اس نے لی ہے یہ حرام سے ہے۔ البتہ اگر اسے معلوم ہو کہ جو رقم اس نے لی ہے وہ ساری یا اس کا کچھ حصہ حرام ہے۔ تو پھر اس میں تصرف کرنا جائز نہیں اور مجتہد کی اجازت سے اس کے ساتھ مجہول المالک والا معاملہ کرے شرطیکہ مالک نہ مل سکتا ہو اور اس مسئلہ میں خارجی اور داخلی حکومتی اور غیر حکومتی بینکوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
2
جو پیسہ بنک میں رکھا جاتا ہے اگر قرض کے عنوان سے ہو اور اس میں نفع کی قرارداد نہ ہو۔ تو اس میں کوئی اشکال نہیں اور بنک کے لئے جائز ہے کہ اس پیسے میں تصرف کرے اور اگر نفع کی قرارداد ہو تو قرض باطل اور بنک اس میں تصرف نہیں کرسکتا۔
3
نفع کی قرارداد جو سود کا سبب ہے اس میں فرق نہیں کہ قرارداد صریح ہو یا قرض لیتے وقت طرفین کی بناء پر ہو پس اگر بنک کا یہ قانون ہے کہ وہ جو قرض لیتا ہے اس کا سود دے گا تو جو قرض اس پر مبنی ہو وہ حرام ہے۔
4
اگر قرض لیتے وقت نفع کی قرارداد نہ ہو نہ بطور صریح اور نہ اس کے بغیر تو قرض صحیح ہے اور قرارداد کے بغیر جو چیز قرض لینے والے کو بنک دے وہ حلال ہے۔
5
جو پیسہ بنک میں ودیعت اور امانت کے عنوان سے رکھا جائے گا اگر مالک اجازت نہ دے کہ بنک اس میں تصرف کرے تو تصرف جائز نہیں اگر اجازت دیدے یا راضی ہو تو پھر جائز ہے۔ اگر بنک اس کی اجازت سے کچھ دے یا لے تو حلال ہے مگر تصرف کی رضامندی کی برگشت حقیقتاً قرض کی طرف ہو یعنی تملک بضمان تو اس صورت میں اگر کوئی چیز قرارداد کے ماتحت ہو تو حرام ہے اور ودیعت بنک ظاہراً اسی قسم سے ہے۔ اگرچہ ودیعت کا نام اسے دیا گیا ہے تو اس صورت میں سود سے کسی طرح چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
6
وہ انعامات جو بنک یا کوئی اور قرض دینے والوں کو شوق دلانے کے لئے دیتے ہیں یا دوسرے ارادے بیچنے اور خریدنے والے کو شوق دلانے کے لئے قرعہ اندازی کے ساتھ دیتے ہیں وہ حلال ہیں، وہ چیزیں جو بیچنے والے اپنی جنس کے اندر رکھ دیتے ہیں ۔ خریداروں کو کھینچنے اور زیادہ کرنے کے لئے مثلاً سونے کا سکہ گھی کے ڈبے میں رکھ دیتے ہیں تو وہ حلال ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں۔
7
بنک اور تجارت کے حوالے کے جنہیں صرف برآت (ڈرافٹ) کہتے ہیں ان میں کوئی حرج نہیں۔ پس اگر بنک یا تاجر کسی سے رقم لے لے اور حوالہ دے کہ دوسری جگہ کے بنک یا کسی شخص سے یہ رقم لے لے اور اس کے اس حوالے کے مقابلے میں حوالہ دینے والا کچھ رقم لے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور وہ حلال ہے مثلاً اگر ہزار روپیہ لاہور کے بنک میں کوئی شخص دے اور بنک اسے حوالہ دے کہ کراچی میں اس بنک کی شاخ سے ہزار روپیہ لے لے اور اس کے مقابلے میں لاہور کا بنک اس سے دس روپے لے تو کوئی اشکال نہیں اور اگر ہزار روپیہ اور دوسری جگہ کے لئے ساڑھے نو سو کا حوالہ دے تو بھی کوئی حرج نہیں چاہے بنک جو رقم لے رہا ہے وہ قرض کے عنوان سے ہو یا کسی اور عنوان سے اور اس قرض میں اگر زیادتی حق العمل کے عنوان سے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
8
اگر بنک یا کوئی اور کمپنی کسی شخص کو کچھ رقم دے اور حوالہ دے کہ یہ شخص یہ رقم بنک کی دوسری جگہ کی شاخ کو یا کمپنی کی شاخ کو ادا کرے تو اگر حق زحمت کے عنوان سے کچھ پیسے لے لے تو کوئی حرج نہیں اور اسی طرح اگر نوٹ کے بیچنے کے عنوان سے زیادہ لے لے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر قرض دے اور قرارداد ہو تو حرام ہے اگرچہ قرارداد نفع صراحۃً نہ ہو لیکن قرض کی بناء اسی پر ہو ۔
9
اگر گروی لینے والے بنک یا کوئی اور بنک قراداد نفع پر قرض دیں اور کوئی چیز گروی رکھ لیں کہ وقت مقررہ پر اگر مقروض نے قرضہ ادا نہ کیا تو وہ اسے بیچ کر اپنا قرضہ وصول کرلیں گے تو یہ قرض باطل اور حرام ہے اور رہن بھی باطل ہے اور بنک کے لئے اس کا بیچنا جائز نہیں اور جو شخص اسے خریدے وہ اس کا مالک نہیں ہوگا بلکہ ضامن ہوگا اور اگر قراداد نفع نہیں اور حق زحمت لیتا ہے اور قرض کے مقابلے میں رہن لیتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اور دستور شرعی کے مطابق رہن کے بیچنے اور خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔