• صارفین کی تعداد :
  • 3889
  • 2/28/2010
  • تاريخ :

ڈاکٹر جاوید اقبال : اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا

ڈاکٹر جاوید اقبال

جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کو فرزند اقبال ہونے کا اعزاز قدرت نے دیا ہے اور اس اعزاز کے باعث پاکستان کے اندر اور باہر انہیں غیر معمولی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے - لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ خود بھی پاکستان کے نمایاں ترین دانشوروں میں سے ایک ہیں - وہ ایک ہمہ پہلو شخصیت کے حامل ہیں- طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے اقبال کے ’’جاوید نامہ‘‘ کے باعث شہرت پائی-

عملی زندگی میں قدم رکھا تو انہیں اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کے طور پر فلسطین کاز پر اہل پاکستان کے جذبات کی ترجمانی کا تین سال کے لئے موقع ملا- وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے کے علاوہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے رکن رہے - انہیں بار بار بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا- آج کل نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے عہدیدار ہیں- ’’فلسطین کاز‘‘ کے سلسلے میں ان کے خیالات ایک انٹرویو کی صورت میں نذر قارئین ہیں-

جسٹس صاحب! امریکہ میں ایک سیاہ فام کے برسراقتدار آنے کے بعد تبدیلی کے جن امکانات کی بات ہو رہی ہے کیا آپ اس تبدیلی کے مشرق وسطی پر بھی کچھ اثرات کی توقع کرتے ہیں ؟

امریکہ میں جو تبدیلی آئی ہے اس کا مقصد دنیا میں تبدیلی لانا نہیں ہے، صدر بش دنیا میں بہت بدنام ہوگئے تھے اور ان کی وجہ سے پوری دنیا میں امریکہ کے لئے نفرت پیدا ہو رہی تھی- اس لئے ایک سیاہ فام کو آگے لایا گیا ہے تاکہ امریکہ کا خراب ’’امیج‘‘ بہتر ہو سکے، اسے آپ امریکیوں کا اپنا کھویا ہوا تشخص بحال کرنے کی کوشش قرار دے سکتے ہیں، اوباما کی ترجیح ہوگی کہ اپنے ملک کی معیشت کو بحال کریں اور مڈل کلاس کو آگے لائیں اس سے آگے نہ وہ کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے اس طرح کی امید لگانی چاہیے گورے انہیں آسانی سے چلنے نہیں دیں گے، اگر انھوں نے اس سے زیادہ تبدیلی کی کوشش کی تو گورے انہیں ناکام بنا دیں گے- بلکہ میں تو  یہ سمجھتا ہوں کے اوباما کے لئے کافی خطرات ہوں گے اور انہیں صدر کنیڈی سے بھی سخت سیکورٹی کی ضرورت ہے- لگتا یہی ہے کہ پالیسی گوروں کی ہی چلتی رہے، گوروں کی پالیسی ہی چلتے رہنے کی وجہ یہ ہو گی کہ مغرب نے مسلمانوں پر ایک تہذیبی جنگ مسلط کر رکھی ہے اور مغرب سمجھتا ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اہل مغرب کے لئے اصل خطرہ اسلام ہے-

مغربی مفکرین جن میں برنا ڈلیوس بڑے مشہور ہیں انھوں نے اپنی کتاب’’ دی متھ آف مسلم ریج‘‘ میں اسلام کو ہی خطرہ قرار دیا ہے، انھوں نے مغر ب کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے سامنے اگلا خطرہ اسلام اور مسلمان ہیں- اس سے پہلے تہذیبوں نے تصادم کا نظریہ سامنے آچکا ہے- اسلام کو خطرہ سمجھنے کے اصل اسباب ایرانی انقلاب، الجزائر میں اسلام پسندوں کی فتح ہیں - ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اس وقت مغرب سے مراد امریکہ ہے-  جس کے پاس طاقت ہے اور وہ دنیا پر حکمرانی کا خواہش مند بھی ہے-

جہاں تک مشرق وسطی کا تعلق ہے اگر اسرائیل ختم ہو جاتا ہے تو امریکہ عرب ممالک کو زیر نگیں نہیں رکھ سکتا، عرب ممالک میں نہ تو کوئی بڑی قیادت ہے اور نہ ہی وہاں جمہوریت ہے، ایسی صور ت میں فلسطین کی آزادی میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں- جنوبی ایشیا کا بڑا مسئلہ کشمیر ہے دیکھتے ہیں صدر اوباما اس کے لیے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں؟ ایک بات اور واضح رہنا چاہیے کہ مسلمانوں کی طرف سے جہاں بھی تحریکیں چلی ہیں وہ رد عمل میں چلی ہیں- وہ چیچنیا ہو یا بوسنیا، فلسطین ہو یا کشمیر، سب رد عمل ہے- دوسری جانب امریکہ گیارہ ستمبر کے واقعات کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے، جس کی وجہ سے القاعدہ طالبان، اور مختلف تحریکیں باہم متحد ہوگئی ہیں، امریکہ ان سب کو اسلام کا نام دے کر جنگ کر رہا ہے-

اسلام کے بارے میں امریکہ اور اہل مغرب کے خدشات پرانے ہیں، جمال الدین افغانی کے نظریات کو پین اسلام ازم کا نام اہل مغرب نے ہی دیا تھا اور وہ اسی دور سے اسلام کو خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں، اس زمانے میں بھی مسلمان ان کے احکامات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور آج بھی مسلمان ان کے سامنے سر  تسلیم خم نہیں کرتے-

امریکہ نے نیوورلڈ آرڈر تیار کیا ہے جبکہ مسلمانوں کے پاس اپنا اسلامی آرڈر ہے - امریکہ اور مغرب جس کو حقوق انسانی کہتے ہیں وہ ہمارے نزدیک حقوق العباد ہیں- مغرب کی ریاست کا تصور اور ہے ہماری اسلامی ریاست کا تصور اور ہے- ان کی جو جمہوریت ہے وہ ہمارے ہاں شورائیت ہے، اہل مغرب کی کتابیں پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں- مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جدید علوم حاصل کریں، اسی سے ہی ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے- اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو اور پیچھے رہ جائیں گے-

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا کیا آپ سمجھتے ہیں کے بعد کے حالات میں قائداعظم کی یہ رائے درست ثابت ہوئی؟

قائد اعظم اور علامہ اقبال نے فلسطین کی آزادی کے لیے بھرپور آواز بلند کی، اپنی تحریروں اور تقریروں میں انھوں نے واضح موقف اختیار کیا، حتی کے مسلم لیگ کو علامہ اقبال کی جانب سے توجہ دلائی گئی کہ مسلم لیگ کے قائدین اپنی تقاریر میں اس اہم مسئلے کو شامل رکھا کریں- بعد ازاں پاکستان نے فلسطین کی آزادی کے لیے ہر سطح پر کام کیا اور جب ظفراللہ خان وزیر خارجہ تھے اس زمانے میں مجھے بھی اقوام متحدہ میں بطور پاکستانی مندوب مسئلہ فلسطین کے لیے پاکستان کا موقف بہت موثر انداز سے پیش کرنے کا موقع ملا ہے-

 میں سمجھتا ہوں کہ اہل فلسطین کے ساتھ  پاکستان اور اہل پاکستان کی نظریاتی وابستگی ہے- جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا حتی کہ آج  کے حکمران بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حماقت نہیں کرسکتے -

کئی بار ایسا ہوا کہ اقوام متحدہ میں جب میں اقوام متحدہ میں تقریر کرتا تو وہاں موجود اسرائیلی سفارت کار مجھے کہتے کہ آپ عربوں سے بڑھ کر فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں، حالانکہ کشمیر کے مسئلے پر عرب آپ کی حمایت نہیں کرتے- آپ ان کی کیوں حمایت کرتے ہیں؟ میں انہیں کہتا کہ فلسطین ہمارے عقیدے کا مسئلہ ہے وہاں پر ہمارا قبلہ اول ہے، ایک وقت آئے گا کہ عر ب کشمیر کے مسئلے پر ہماری حمایت کریں گے، اب حالات اس طرح نہیں ہیں، عربوں نے بھی اپنی پالیسی میں تبدیلیاں کیں ہیں، وہ کشمیر کے مسئلے پر ہماری حمایت کرتے ہیں- میں ہمیشہ اسرائیلی اور مغربی نمائندوں سے کہتا تھا کہ ہم مظلوموں کے ساتھ ہیں- ہم فلسطین پر قبضے کے خلاف ہیں-

آپ کو مغربی ممالک کا بھی بار بار دورہ کرنے کا موقع ملا- وھاں آپ نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لئے کیسا ماحول دیکھا؟

میں مغربی ممالک کے دورے پر جب بھی گیا وہاں پر اور کوئی مجھ سے کوئی سوال نہیں کرتا تھا- صرف یہودی مجھ سے سوال کرتے تھے ان یہودیوں کو معلوم ہوتا تھا کہ میں اقبال کا بیٹا ہوں، وہ مجھ سے پوچھتے تھے کہ آپ کے والد محترم نے ضرب کلیم لکھی ہے ہم نے اس کو عبرانی زبان میں ترجمہ کیا ہے آپ ہمارے خلاف کیوں لڑتے ہیں؟

میں نے انہیں جواباً کہتا کہ اسی علامہ اقبال کا مؤقف ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں رہا ہے- علامہ کہا کرتے تھے کہ اگر فلسطین پر ان حق تسلیم کیا جائے تو پھر سپین پر مسلمانوں کا حق کیوں نہیں ہے؟ یہودی اہم پاکستانی شخصیات کے ساتھ  روابط  بنانے کی کوشش کرتے ہیں میں جب کیمرج میں پڑھ  رہا تھا تو ایک یہودی لڑکی نے میرے ساتھ رابطہ رکھنے کی کوشش کی-

ایک دفعہ علامہ اقبال پر قرطبہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی تھی، یہودی نمائندے نے مسلمانوں کے لئے اچھے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب عیسائی ان پر ظلم کر رہے تھے تو مسلمانوں نے ان کو بچایا تھا، اس وقت یہودیوں کو اگر کسی نے پناہ دی ہے تو وہ مسلمان ہی تھے، تو میں نے ان سے کہا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ روادار ی کا ثبوت دیا ہے-

اقوام متحدہ نے اسرائیل کے خلاف کئی قراردادیں پاس کی ہیں، مگر ان پر اسرائیل نے کبھی عمل نہیں کیا، کیا اس سے عالمی ادارے کی ساکھ کو نقصان نہیں ہو رہا ہے؟

اقوام متحدہ کا حال لیگ آف نیشن جیسا ہونے جا رہا ہے- یہ ادارہ بھی بڑی طاقتوں کے زیر نگیں ہے، اسرائیل کی پشت پر چونکہ بڑی طاقتیں ہیں اس لیے وہ کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، اگر بڑی طاقتیں اس کی پشت سے ہٹ جائیں تو اسرائیل ان قراردادوں پر عمل کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے، اسرائیل کو بڑی طاقتوں کی حمایت کی وجہ سے ہی فلسطین پر قبضہ کرنے کا موقع ملا، اور اسی وجہ سے اس کا قبضہ ابھی تک قائم ہے-

اسرائیل نسل پرستی میں بھی سب سے آگے ہے، اس کے باوجود کوئی اس کے خلاف بات نہیں کرتا، اس کی کیا وجہ ہے؟

اسرائیل نسل پرست ریاست ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے- دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں، ان کی نسل چونکہ عورت سے چلتی ہے اس لیے وہ اپنی نسل پر خاص توجہ دیتے ہیں، اسی وجہ سے اسرائیل میں کئی روسی یہودیوں کو یہودی ماننے سے بھی انکار کیا اور انہیں واپس روس آنا پڑا- نسل پرستی کی اس برائی میں پورپ بھی شامل ہے- ترکی کو اسی وجہ سے آج تک پورپی یونین میں شامل نہیں کیا جبکہ اس کے مقابلے میں رومانیہ کو شامل کر لیا گیا، یہ نسل پرستی ہی کے باعث ہے- البتہ کچھ ماڈرن یہودی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، نسل پرستی میں اسرائیل کا کوئی ثانی نہیں ہے-

اسرائیل نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہے بلکہ وہ دیگر عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا رہتا ہے -  غزہ پر مسلط کردہ حالیہ جنگ کے دوران اسرائیلی افواج نے بھی جینوا کنونشن کی خلاف ورزیاں کیں-  ان جرائم  پر اسرائیل کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟

اسرائیل کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگوانے اور عالمی اداروں، بچوں، خواتین اور نہتے شہریوں کے خلاف اس کے رویے پر اس کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل او آئی سی اور عرب لیگ کو کوشش کرنی چاہیے- اسرائیل کے رویے کو دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کی اسرائیلی رکنیت کو بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے- لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عرب لیگ اور او آئی سی ایسا کوئی ارادہ یارجحان رکھتی ہے، او آئی سی کا معاملہ تو یہ ہے کہ اس نے غزہ پر اسرائیلی مسلط کردہ بائیس روزہ جنگ کے دوران یا اس کے بعد بھی اپنا اجلاس نہیں بلایا  لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ او آئی سی کو چاہیے کہ اسرائیل کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا مطالبہ کریں اور اس کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے خاتمے کے لئے بھی کوششیں کرے-

حزب اللہ کے ساتھ لبنان میں اور اب حماس کے ساتھ غزہ جنگ میں اسرائیل کو وہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے جو وہ حاصل کرنا چاہتا تھا، آپ کیا دیکھتے ہیں؟

جب تک مغرب انصاف کی طرف نہیں آئے گا اس وقت دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا، اسرائیل چونکہ امریکہ کے مفاد میں ہے اس لیے وہ اس کی حمایت کرتاہے، امریکہ گلوبلائزیشن کی باتیں بھی اس لئے کرتا ہے تاکہ اس کا ہر جگہ حکم چلے، وہ اپنی بالا دستی چاہتاہے اور وہ سمجھتا ہے اس کی بالادستی میں مسلمان رکاوٹ ہیں، عرب متحد ہو جائیں تو اسرائیل ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے مگر وہ خود منقسم ہیں- عرب متحد ہوجائیں تو عجم بھی ان کے ساتھ ہو جائیں گے-

پاک ڈاٹ نیٹ


متعلقہ تحریریں:

سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو

جناب سید خسروشاہی کا انٹرویو