• صارفین کی تعداد :
  • 10021
  • 3/21/2010
  • تاريخ :

شیخ چلی

خیالی پلاؤ

آج ہم آپ کو ایک بچے سے ملواتے ہیں کہ اسی کے گھر چلتے ہیں، جہاں وہ اور اس کے امی ابو بھی رہتے ہیں، اس کے دو اور بھی بھائی ہیں۔ وہ بچہ بے حد اچھا ہے، ہر کام کرتا ہے، اپنے امی ابو کا کہنا بھی مانتا ہے، بس مسئلہ صرف ایک ہے کہ وہ بچہ جس کا نام محسن ہے اس کو خیالی پلاؤ پکانے کی عادت ہے۔ یعنی وہ ایسی پلا ننگ کرتا ہے کہ اس کے امی ابو کبھی تو شرمندہ ہوتے ہیں، کبھی اسے سمجھاتے ہیں اور کبھی کبھی تو اس کو ڈانٹ بھی پڑجاتی ہے۔ یعنی وہ اسکول سے آکر کسی روز کہتا ہے، اس بار تو مجھے کرکٹ میں ٹرافی ملے گی، جبکہ ابھی اسے کرکٹ کھیلنی بھی نہیں آتی۔

یا پھر کسی دن اسکول سے آتے ہی بیگ کاندھے سے اتارتے ہی چھوٹے بھیا جن کا نام احسن ہے اس سے بڑے رعب سے کہتے ہیں اس بار میرا فرسٹ آنے کا پروگرام ہے، دیکھ لینا تم سب تو پیچھے رہ جاؤ گے۔

گھر والے تو خیر انہیں سمجھاتے رہتے ہیں لیکن اب ان کو اسکول میں سب نے شیخ چلی کہنا شروع کر دیا ہے۔ کیونکہ ہماری کہانیوں میں یہ کردار ان صاحب کا ہے جو ہر وقت خواب دیکھتے رہتے ہیں لیکن کام کرنے میں بے حد سست ہیں۔ اسی لئے جب کوئی بہت بڑی بڑی باتیں کرتا ہے اور عملاً کچھ بھی نہیں کرتا تو آپ نے بھی سنا ہوگا کہ ہم سب اسے شیخ چلی کہنا شروع کرتے ہیں۔

اب آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ یہ شیخ چلی صاحب ہیں کون، تو چلیے ہم آپ کو ان ہی کا ایک قصہ سناتے ہیں۔ شیخ چلی صاحب کو ایک روز صبح ہی صبح، ان کی امی نے جگایا، اور پھر ناشتے کے بعد انہیں انڈے لے کر شہر جانے کے لیے روانہ کردیا، ساتھ میں دوپہر کا کھانا بھی باندھ دیا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے شہروں کی طرح ہر قدم پر سواری یعنی رکشہ، بس نیکی کی سہولت نہ ہوئی تھی اور لوگ میلوں پیدل سفر کیا کرتے تھے، تو جناب وہ نکلے گھر سے، چلتے چلتے جب تھک گئے تو ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام کرنے لگے، اتنی دیر میں ان کے گاؤں کا ایک آدمی انہیں پہچان کر ان کے پاس آ بیٹھا ۔

شیخ صاحب کو بھوک لگی، کھانا کھانا شروع کیا تو اس شخص کو بھی ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ کھانا کھاتے کھاتے جب انہوں نے پوچھا کہ شیخ چلی کہاں جا رہے ہو ؟ تو انہیں غصہ آ گیا، اور انہوں نے ناراضگی سے کہا کہ آئندہ مجھے شیخ چلی نہ کہنا بلکہ صرف شیخ صاحب کہا کرو کیونکہ میں اس ریاست کا ہونے والا راجا ہوں

 وہ شخص حیران ہوگیا تو انہوں نے کہا، ایسا کیوں نہیں ہو سکتا، میں یہ انڈے بیچ کر مرغی خریدوں گا جو میری اپنی ہوگی۔

 وہ مرغی جب انڈے دے گی تو اس سے بچے نکلیں گے، جب بہت ساری مرغیاں ہوجائیں گی تو ان کو بیچ کر بکریاں خریدوں گا، اور ان سے پھر بہت ساری بکریاں، پھر جب بہت ساری بکریاں ہوجائیں گی تو ان کو بیچ کر گائے، اور پھر جب اسی طرح بہت ساری گائیں ہوجائیں گی تو ان کو بیچ کر زمینیں خریدوں گا، پھر میں اس علاقے کا امیر ترین انسان بن جاؤں گا، تو اس وقت کا راجہ خود آ کر مجھ سے کہے گا کہ میری بیٹی کا رشتہ قبول کرلو، تو میں کہوں گا، سوچیں گے لیکن پھر میں اس کی بیٹی سے شادی کرلوں گا۔

خیالی پلاؤ

’’ واہ بھئی یہ تو بڑا اچھا منصوبہ ہے‘‘ اس شخص نے ایک لمبی جمائی لی اور کیا جائیے بھئی، ابھی آپ کوشہر جا کر انڈے بیچ کر مرغی خریدنی ہے اور ٹہلتا ہوا چل دیا۔

اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ شیخ صاحب نے بھی شہر کارخ کیا ہوگا، کیونکہ ابھی تو وہاں پہنچنے میں بھی خاصا وقت لگتا تھا۔ لیکن جناب شیخ کو تو کھانا کھا کر نیند آنے لگی تھی لہٰذا سوچا تھوڑی دیر آرام کرلوں، اب وہ لیٹے سوچ رہے تھے۔ کہ راجا کی بیٹی سے شادی کرنے کے بعد بڑا سامحل ہوگا، خوبصورت سی بیوی ہوگی اور پھر ہمارے محل میں ہمارے بہت سے بچے بھی ہوں گے، بچے تو مجھ سے بہت ہی فرمائشیں کریں گے کہ مجھے یہ چاہیے اور پھر کبھی وہ چاہیے۔

اور جب وہ مجھ سے پیسے مانگیں گے تو میں انہیں ایسے ٹانگ ماروں گا، اور اپنے سے دور کردوں گا، یہ سوچتے چلتے جو انہوں نے ٹانگ ہلائی، ٹانگ جا کر انڈوں کی ٹوکری سے ٹکرا گئی، تقریباً سارے ہی انڈے گرکے ٹوٹ گئے۔ ٹوٹے ہوئے انڈے دیکھ کر سوچیں ذرا کہ شیخ چلی صاحب کی کیا حالت ہوئی ہوگی، ہائے میں لٹ گیا، برباد ہوگیا، کہتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہوئے ہوں گے اور وہاں یقینا امی نے بھی ان کا جوتیوں سے استقبال کیا ہوگا۔

اس لیے ہم محسن سے، اور اپنے اپنے پیارے بچوں، اور آپ سب سے بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ بڑا نام کام سے ہوتا ہے، لہٰذا آپ لوگ بھی وعدہ کریں کہ فرسٹ آنے کے لیے ، اچھا کھلاڑی یا آرٹسٹ بننے کے لیے صرف اور صرف کام کریں گے، کیونکہ باتوں سے تو کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ ہے ناں۔

تحریر: غزالہ رشید ( عالمی اخبار)


متعلقہ تحریریں :

اخلاقی محبت

عذر قبول کيا جائے