• صارفین کی تعداد :
  • 2650
  • 1/11/2010
  • تاريخ :

صیہونیزم اور ٹروریزم

صیہونیزم کا نشان

"صیہونیزم" انیسویں صدی کے آخر میں "تھئوڈور ہرٹزل" نامی ایک یہودی مفکر کی جانب سے دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنے اور وہاں پر ان کیلئے ایک خودمختار ریاست قائم کرنے کے ہدف سے معرض وجود میں آیا۔ اس مکتب فکر کے مطابق ہدف وسیلے کو جائز بنا دیتا ہے باین معنا کہ ہر وہ فعل جو ہدف کو حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جائز ہے چاہے دینی اور عقلی حوالے سے قابل مذمت ہی کیوں نہ ہو۔ ہرٹسل پہلے اس مقصد کی خاطر عثمانی خلافت کے سربراہ سلطان عبدالحمید کے پاس گیا لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ عثمانی خلیفہ سے مایوسی کے بعد اس نے برطانیہ کا رخ کیا اور برطانوی حکومت کو یہودی ریاست کے قیام کیلئے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گیا۔ دوسری

جنگ عظیم میں خلافت عثمانی کے خاتمے کے بعد ہرٹسل نے فلسطین میں ایک یہودی ایجنسی قائم کی جس کو برطانیہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ برطانیہ نے رسمی طور پر اس ایجنسی کو دنیا کے تمام یہودیوں کی نمائندہ جماعت قرار دیا جس کے نتیجے میں ساری دنیا کے یہودیوں نے اس ایجنسی کی مدد سے فلسطین کا رخ کیا۔ 

تھوڑی مدت کے بعد اس ایجنسی کی زیر نگرانی یہودیوں کی حفاظت کے بہانے مسلح گروپس بننا شروع ہو گئے۔ یہ گروپس فلسطین میں یہودی مہاجرین کی حفاظت کو اپنا فرض ظاہر کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان گروپس نے فلسطینی مسلمانوں پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔ یہ گروپس نظریاتی حوالے سے ایکدوسرے سے اختلافات رکھتے تھے لیکن سب کا ہدف ایک تھا اور وہ یہودیوں کے مفادات کی حفاظت کرنا تھا۔

صیہونیزم اور ٹروریزم

صیہونیزم:

انسائیکلوپیڈیا میں صیہونیزم کے لفظ کی تعریف اس طرح سے کی گئی ہے: "صیہونیزم ایسا لفظ ہے جو 1890 میں ایک ایسی تحریک کیلئے مشہور ہو گیا جس کا ہدف دنیا کے تمام یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنا تھا"۔

1896 سے یہ لفظ ایک سیاسی تحریک کیلئے استعمال ہونے لگا جس کی بنیاد تھئوڈور ہرٹسل نے رکھی"۔

 یہ لفظ "صیہون" نامی ایک پہاڑ سے لیا گیا ہے۔ یہ لفظ یہودیوں کے نزدیک "مقدس سرزمین" یا "سرزمین موعود" کے معنا میں رائج ہو گیا ہے۔ اس لفظ کو پہلی بار ایک جرمن یہودی مصنف بارنتن برینیوم نے انیسویں صدی میں یہودیوں کے درمیان ایک نئی سیاسی سوچ کیلئے استعمال کیا تھا۔ سیاسی صیہونیزم ہرٹسل کی جانب سے اس کی تحریروں میں ایک عملی منصوبے کے طور پر استعمال کیا گیا جس کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ دنیا میں ایک مسئلہ "مسئلہ یہود" کے عنوان سے موجود ہے جس کی اصل وجہ یہودیوں کی دربدری اور اصلی وطن نہ ہونا ہے اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ دنیا کے تمام یہودی اپنی اصلی سرزمین یعنی فلسطین کی طرف لوٹ جائیں اور وہاں ایک خالص یہودی ریاست قائم کریں۔ یہ تحریک انیسویں صدی میں اس وقت وجود میں آئی جب دو بڑے سیاسی نظریئے پائے جاتے تھے۔ پہلا نظریہ انسانی بھائی چارے، مساوات، ترقی اور ایسی دنیا قائم کرنے پر مبنی تھا جس میں تمام انسان ایک گھرانے کے طور پر زندگی بسر کر سکیں جبکہ دوسرا نظریہ ایک خاص نسل کی دوسرے انسانوں پر برتری کا نظریہ تھا۔ پہلا نظریہ لیبرالیزم سے لیا گیا تھا جسکے حامی فقیر یہودی تھے جبکہ دوسرا نظریہ ایسے یہودیوں کا تھا جو انسانی مساوات کے قائل نہیں تھے بلکہ یہودی نسل کی برتری کے قائل تھے۔

بشکریہ اسلام ٹائمز


متعلقہ تحریریں:

فلسطین کی تاریخ اور اس پر تسلط حاصل کرنے کے طریقہ کار

فلسطین پر دستاویزی فلمیں