• صارفین کی تعداد :
  • 3082
  • 1/4/2010
  • تاريخ :

شاہ چراغ، سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم

شاہ چراغ

عظمتوں کی انتہا ہیں شاہ چراغِ موسیٰ کاظم
فضل و کرم کبریا ہیں شاہ چراغِ موسیٰ کاظم
آپ ہمنامِ رسالت ماب، احمد مجتبیٰ
 تاجدارِ نما ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
نور کی جلوہ گری ہے آپ کے دربار میں
 نوریوں کے پیشوا ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
حیدر ِکرّار کے نورِ نظر، شیر خدا
سیدہ کی وہ عطا ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
سنت شبیر زندہ کی تھی پھر شیراز میں
عکس شاہِ کربلا ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
پاسبان دین ہیں وہ ہیں محافظ راہِ حق
عاصیو! قبلہ نما ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
جن کے دادا پاک ہیں اہل جہاں کے داد رس
 میرے وہ مشکل کشا ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
صورت و سیرت میں ہیں وہ ہو بہو شاہ نجف
 نائب خیر الوریٰ ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
ہے علی عباس کے دل میں چراغ مرتضٰی
 وہ رضائے مصطفٰی ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم

 

سیدنا امام موسی کاظم (ع)  کی اولاد اطہار میں ہر جلیل المنزلت صاحبزادہ مقام منفرد رکھتا ہے جن کی حیات طیبہ فدا کاری، تبلیغ دین، ایثار اور فلاح انسانی کی باکمال کاوشوں سے لبریز ہے ۔ آٹھویں خلیفہ  راشد سیدنا امام علی بن موسیٰ الرضا (ع) کے بعد سیدنا احمد بن امام موسیٰ کاظم، کمال جاہ وجلال، رفیع الدرجات، قدر ومنزلت اور شان و عظمت کے مالک ہیں ۔ آپ سیدنا امام موسیٰ کاظم کے بزرگ ترین فرزندان میں سے ہیں ۔ امام موسیٰ کاظم (ع)  آپ سے بیحد محبت فرماتے اور تمام امور میں آپ کو مقدم رکھتے ۔ آپ نے اپنی یُسَیْرَہْ نامی جاگیر اُن کے لئے وقف فرمائی ۔ سیدنا احمد، سیدنا محمد اور سیدنا حمزہ  بن امام موسیٰ کاظم ایک والدہ سے ہیں ۔

آپ کی والدہ مکرمہ حضرت ام احمد بزرگ ترین خواتین میں سے تھیں ۔ سیدنا امام موسیٰ کاظم ان مخدومہ پہ خصوصی نگاہ کرم فرماتے ۔ جب آپ مدینہ منورہ سے عازم بغداد ہوئے تو تمام تبرکاتِ امامت آپ کے سپرد کرتے فرمایا:

’’یہ تبرکات امامت آپ کے پاس میری امانت ہیں ۔ میری شہادت کے بعد جب کوئی یہ تبرکات طلب کرے تو دے دینا، وہی خلیفہ اور امام ہوں گے ۔ آپ پر اور دیگر لوگوں پر ان کی اطاعت واجب ہو گی ‘‘۔ حضرت امام علی رضا (ع) کو حضرت ام احمد کے گھر میں بڑے احتیاط سے وصیت فرمائی ۔ اس کے بعد ہارون الرشید عباسی نے سیدنا امام موسیٰ کاظم (ع) کو زہر دلوا کر شہید کر دیا ۔

آپ کی جانگداز شہادت کے بعد سیدنا امام علی رضا(ع)، حضرت ام احمد کے پاس تشریف لائے اور تبرکاتِ امامت کا مطالبہ کیا ۔ سیدتنا ام احمد نے یہ سن کر گریہ زاری فرمائی اور سر کوبی فرماتے پوچھا، ’’سیدی ! کیا آپ کے والد بزرگوار شہید ہو گئے ؟ ‘‘۔فرمایا، ’’ہاں، ابھی ان کے دفن کے بعد مدینہ واپس آیا ہوں ۔ آپ وہ امانتیں مجھے دے دیں جو میرے والد بزرگوار نے بغداد کا سفر اختیار کرتے  وقت آپ کے سپرد فرمائی تھیں ۔ میں ان کا خلیفہ اور جن و انس پہ امام برحق ہوں ‘‘۔ مخدومہ پاک نے یہ سن کر شدت سے آہ و زاری کی اور امانتیں واپس کر کے سیدنا امام علی رضا (ع) کی بیعت کی ۔ جب حضرت امام موسیٰ کاظم(ع)  کی شہادت کی خبر مدینہ منورہ میں معروف ہوئی تو اہل مدینہ جوق در جوق حضرت بی بی ام احمد کے گھر کے دروازے پر جمع ہونے لگے ۔

                                                                                                                                                                   جاری ہے۔

علمی اخبار ڈاٹ کام