• صارفین کی تعداد :
  • 3820
  • 12/12/2009
  • تاريخ :

زبان اوستا اور پہلوی

زبان اوستا

فارسی باستان کی جگہ بعد میں " اوستا زبان " نے لے لی اور زرتشت مذھب کی مقدس کتاب " اوستا " کی یہی زبان ہے ۔ اس زبان کا اس وقت کا مستعمل نام اور علاقہ صحیح طرح سے معلوم نہیں ہو سکا ۔ 

آج کل " اوستا " جس شکل میں موجود ہے وہ ساسانی دور میں مرتب کی گئی ہے ۔ اس میں زرتشت کے حالات صرف " گاتھا " میں ملتے ہیں جو کہ " اوستا " کا ابتدائی حصہ ہے اور زرتشت نے اسے اپنے نام سے موسوم کیا ہے ۔

زرتشت کا عہد 1552 تا 1452  قبل مسیح ہے ۔ عہد اشکانی میں پہلوی کے نام سے ایک نئی زبان رائج ہوئی  اور پروفیسر براؤن نے  Literary History of Persian   میں ایک محقق اولز ہاسن ( Olshauson  ) کے حوالے سے لکھا ہے کہ پہلوی زبان صوبہ " پرتو " یا  " پارتھیا " کی زبان تھی اور یہیں سے اٹھ کر اشکانیوں نے یونانیوں کو مغلوب کیا ۔ لفظ  " پرتو " کے متعلق اندازہ ہے کہ یہ " پرتو " یا  " پرتوا " سے " پرہاد " بنا اور بعد ازاں  " پہلاو" اور " پہلاوا " مشہور ہوا ۔ اسی نسبت سے وہاں کی زبان  " پہلوی " کہلائی ۔ پہلوی زبان صوبہ " پرتو " یا  " پارتھیا " سے نکل کر پورے ایران کی زبان بن گئی ۔ اس زبان اور موجودہ فارسی میں زیادہ فرق نہیں ہے اس لیۓ اسے  " فارسی میانہ  " بھی  کہتے ہیں ۔

عہد اشکانی سے لے کر آخری ساسانی بادشاہ یزد گرد سوم کے قتل تک یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل رہی اور اس میں کئی کتابیں لکھی گئیں ۔ 

تحریر : پروفیسر میجر (ر) نذیر احمد ظفر چیمہ

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

فارسی ادب کا اجمالی جائزہ

فارسی زبان کا گھر

عارف رومی کی ایک مشہور غزل مع ترجمه

حکیم عمر خیام نیشاپوری کی رباعیات کا منظوم اردو ترجمہ