• صارفین کی تعداد :
  • 5143
  • 8/17/2011
  • تاريخ :

جادو کي بوتل

جادو کی بوتل

نجمي ميرا بہت قريبي دوست تھا- پڑھائي اور کھيل ميں ہميشہ ميرے ساتھ رہتا- يہاں تک کہ ہماري شرارتيں بھي آپس ميں مشوروں سے انجام پاتيں- دوسرے ميرے ماموں زاد بھائي، انجم- جو ہم دونوں سے عمر ميں بڑے تھے- دوستي تو ان سے بھي تھي ليکن اتني نہيں کہ انہيں ہر معاملہ ميں شريک کيا جائے- انجم بھائي تھے بہت سر چڑھے اور مغرور- لاڈلے کچھ زيادہ تھے لہٰذا ان کي اکثر ضديں پوري کر دي جاتي تھيں- کھيل کي نت نئي چيزيں لاتے اور ہميں دکھا کر چڑاتے رہتے- ايک بار ايک بوتل لائے جس ميں جامني رنگ بھرا ہوا تھا- ہميں دکھا کر بولے

”‌ ديکھو يہ جادو کا رنگ ہے-”

”‌ وہ کيسے؟” ہم نے سوال کيا-

”‌ادھر آ -” انجم بھائي نے ہميں اپنے قريب بلايا-

نجمي اور ميں ان کے قريب گئے - انہوں نے بوتل کھولي اور جھٹ سے کچھ رنگ ہم دونوں کے کپڑوں پر ڈال ديا- رنگ پڑنا تھا ميں نے اور نجمي نے رونا شروع کر ديا- ہمارے کپڑے جو خراب ہو گئے تھے- انجم بھائي بڑي ڈھٹائي سے ہنس رہے تھے اور کہتے جاتے -

”‌ ارے کچھ نہيں ہوا- سب ٹھيک ہے-”

ہميں فکر تھي کہ گھر گئے اور مار پڑي- ليکن چار پانچ منٹ کي اس کہا سني کے دوران ہمارے کپڑوں سے رنگ غائب ہو چکا تھاا ور ہمارے کپڑے پہلے کي طرح صاف تھے- بڑي حيرت ہوئي اور اپنے رونے پر شرمندگي بھي-

”‌نجم بھائي! يہ تو سچ مچ جادو کا رنگ ہے-”

”‌ آپ کہاں سے لائے ہیں؟”

”‌ ہميں بھي دلا ديں-” ہم دونوں نے بڑے خوشامدانہ انداز ميں سوالات کر ڈالے-

انجم بھائي تو اب اور اکڑ گئے- ”‌ يہ ايک جن کا فارمولا ہے- يہاں تو ملے گا بھي نہیں-”

”‌تو پھر تھوڑا سا رنگ ہي دے ديں-” نجمي نے انجم بھائي سے درخواست کي جو مسترد کر دي گئي- ہم دونوں اپنا سا منہ لے کر رہ گئے- بہرحال صبر کيا ليکن يہ تہيہ کر ليا کہ انجم بھائي کو ان کے غرور کا مزہ ضرور چکھانا ہے-

*....*

جمعہ کا دن تھا- بارہ بجے کے قريب ناصر ماموں، جو انجم بھائي کے چچا ہوتے تھے، سفيد کرتا، پاجامہ زيب تن کيے بڑي شان کے ساتھ نانا جان کے پاس برآمدہ ميں آکر بيٹھ گئے- بہت خوشگوار موڈ ميں تھے- انجم بھائي بڑي شوخي کے ساتھ آئے اور اپني جادو کي بوتل سے جامني رنگ ناصر ماموں کے کپڑوں پر چھڑک ديا- ناصر ماموں بڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے- غصہ سے ان کا چہرہ سرخ ہو گيا- چيخ کر بولے- ”‌ نالائق يہ کيا حرکت ہے؟”

”‌ کيا کيا ہے يہ؟” انجم بھائي کے چہرے پر اطمينان تھا اور وہي شوخ مسکراہٹ - انہيں يقين تھا کہ اب چند منٹوں ميں يہ رنگ ہوا ہوجائے گا-

ادھر ناصر ماموں بڑي مشکل سے اپنے غصے کو ضبط کررہے تھے- پانچ چھ منٹ گزرنے کے بعد بھي جب رنگ اپني جگہ جمع رہا تو انجم بھائي کے چہرے کا رنگ اڑنا شروع ہو گيا- آخر ضبط کي بھي انتہا ہوتي ہے- ناصر ماموں کا ايک بھرپور چانٹا انجم بھائي کے رخسار پر پڑا اور پھرا ن کي آنکھوں سے گنگا جمنا رواں ہو گئي- انجم بھائي حيران تھے کہ ايسا تو کبھي نہ ہوا تھا- اس کا جادو کہاں گيا؟ ناصر ماموں انہيں مستقل برا بھلا کہے جا رہے تھے اور اب تو وہ سب ہي گھر والوں کي ڈانٹ سن رہے تھے-

ناني جان نے آتے ہي سنائي- ”‌ارے بچے تو ديوانہ ہو گيا ہے کيا؟ يہ کيا کيا تونے؟يہ تجھے سوجھي کيا تھي؟”

”‌آنے دو تمہارے ابو کو آج وہ ہي تمہارے شوق پورے کريں گے-” مماني جان بھي آگئيں- غرض يہ کہ چاروں طرف سے بوچھاڑ پڑ رہي تھي-

ادھر ميں اور نجمي اپني کارکردگي پر خوش تھے- ايسا کيسے ہوا؟ ہم دونوں نے اس جادو کے رنگ کي خالي بوتل حاصل کي- دو آنے کا پکا جامني رنگ لا کر بوتل ميں بھر کر کسي طرح نجم بھائي کي بوتل سے بدل ديا- پھر جو کچھ ہوا وہ تو آپ سن ہي چکے ہيں- انجم بھائي کو آج تک يہ بات معلوم نہ ہو سکي کہ اس جادو کے رنگ کا جادو کہاں گيا- اگر اب آپ ميں سے کسي نے بتا ديا تو ہماري خير نہيں-

تحریر:  احمد کمال


متعلقہ تحريريں :

ہائے ر ے تکيہ کلام

ايک چيونٹے کي کہاني 

سہيلي کي مدد

محنت کا پھل

ہم روشني ہيں