• صارفین کی تعداد :
  • 4308
  • 7/18/2011
  • تاريخ :

فلسطینی جہاد اسلامی کے اعلی کمانڈر محمد شحادہ، کیوں شیعہ ہوئے؟ (حصّہ دوّم)

بسم الله الرحمن الرحيم

المجلّہ : آپ شیعہ مذہب سے کس طرح روشناس ہوئے؟

محمد شحادہ : کتب کے مطالعے اور لبنان میں جلاوطنی کے ایام میں اہل تشیع کے ساتھ آنے  جانے  کی بدولت.

المجلّہ : کیا جہاد اسلامی میں آپ کے دیگر دوستوں کو آپ کے شیعہ رجحانات کا علم تھا؟

محمد شحادہ : جی ہاں! میں مختلف مناسبتوں سے مختلف مواقع پر ان کے ساتھ بات چیت کرتا تھا اور ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں ان کے موقف کا جواب دیا کرتا تھا. میں انہیں بتایا کرتا تھا کہ دنیا کے تمام مسلمان اور تمام حریت پسند تحریکیں ایران کے اسلامی انقلاب کے ہمراہ ہیں اور وہ سب اس کی پاسداری کرتے ہیں.

المجلّہ : کیا جہاد اسلامی کے اندر آپ کو کسی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا ؟

محمد شحادہ : نہیں، مجھے کبھی بھی ایسی چیز کا سامنا نہیں کرنا پڑا؛ گو کہ تنقید ہوا کرتی تھی مگر کسی نے  بھی بلاواسطہ طور پر (Directly) میرے ساتھ بحث و جدل نہیں کیا.

المجلّہ : آپ ایک نامی گرامی راہنما ہیں اور لوگوں میں بھی نہایت قابل احترام اور ہردلعزیز ہیں؛ کیا اعلان تشیع کے بعد اس حوالے سے آپ کو کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہوا ؟

محمد شحادہ : میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کی اکثریت آخر کار اس نتیجے پر پہنچے گی کہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کے بارے میں انہیں بحث و تحقیق کرنی چاہئے اور آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جو کچھ وہ شیعیان اہل بیت (ع﴾ کے بارے میں کہا کرتے تھے، صحیح نہیں تھا. البتہ میری مراد شیعوں کے درمیان وہ لوگ نہیں ہیں جو غلاة (غالی کی جمع﴾ کے عنوان سے پہچانے  جاتے ہیں کیوں کہ ان کے اپنے  خاص نظریات و افکار ہیں.

میں سمجھتا ہوں کہ شیعہ امامیہ کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ اور ادراک وجود میں آیا ہے  اور لوگ ماضی کی طرح اس کی مخالفت نہیں کرتے. اس بات کی دلیل یہ ہے  کہ الازہر کے سابق شیخ الجامعہ «شیخ محمود شلتوت» نے  فتوي دے کر شیعہ مذہب کو اسلامی مذاہب کے زمرے میں شمارکیا اور اس کی پیروی کو جائز قرار دیا.

المجلّہ : ہم ذرا واضح بات کرنا چاہیں گے؛ اس حقیقت کو مدنظر رکھیں کہ سنی مذہب کئی صدیوں سے فلسطین پر چھایا ہوا ہے  ؛ اور اب بتائیں کہ کیا مذہب شیعہ کے لئے اس ملک میں کوئی مستقبل تصور کیا جاسکتا ہے؟

محمد شحادہ : جی ہاں! مذہب شیعہ کے لئے اس ملک میں مستقبل متصور ہے  اور یہ ایک الہی مسئلہ ہے .

المجلّہ : آپ جہاد اسلامی کے رکن ہیں؛ کیا آپ کے شیعہ ہونے  کی وجہ سے جہاد اسلامی کے ساتھ آپ کے تعلق پر کوئی اثر پڑا ہے ؟

محمد شحادہ : نہیں، کوئی اثر نہیں پڑا. جہاد اسلامی تحریک کلی طور پر ایک سنی تحریک ہے  مگر فرقہ واریت کی پیروی نہیں کرتی اور اپنے  ارکان اور عام لوگوں کے ساتھ اس تحریک کا لین دین اور تعلق مذہبی وابستگیوں سے بالاتر ہے.

المجلّہ : بعض لوگوں [یعنی فرقہ واریت پر یقین رکھنے  والے وہابی اور المجلّہ کے مالکان و مدیران] کا خیال ہے  کہ شیعہ ہوکر مسلمانوں میں تفرقہ و اختلاف ڈالنے  کی بجائے، بہتر تھا کہ آپ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و یکجہتی قائم کرتے؛ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟

محمد شحادہ : بالکل واضح ہے  کہ اس وقت اتحاد بین المسلمین کی عالمی تحریک کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہے ! اور کون اس کشتی کی ہدایت کررہا ہے ؟ اس سلسلے میں ہمارے ایرانی برادران کا کردار بنیادی اور ناقابل انکار ہے  اور ایران اکثر اسلامی تحریکوں کے نمائندوں کے ساتھ مثبت روابط رکھتا ہے. ایران میں ہر سال ایک ہفتہ، وحدت کے لئے مختص کیا گیا ہے  اور میں نے  اہل تشیع کے ساتھ میل جول کے دوران کبھی بھی ان سے تعصب اور اہل سنت کی مخالفت کا مشاہدہ نہیں کیا ہے  بلکہ میں نے  جو بھی دیکھا اور سنا اتحاد بین المسلمین کے لئے شیعوں کی انتھک عالمی کوششوں کے بارے میں تھااور اختلافات صرف فروعی مسائل میں ہیں اور اصولی مسائل اور عمومی حکمت عملیوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے  اور سارے مسلمان امت واحدہ ہیں اور ان سب کو مشترکہ اصولوں کی شناخت حاصل ہونی چاہئے.

المجلّہ : ممکن ہے  کچھ لوگ آپ پر ایران کے مفاد میں کام کرنے  کا الزام لگائیں؛ بالخصوص کہ آپ کا اقدام [اعلان تشیع] فلسطین میں پہلا ہی اقدام سمجھا جاتا ہے؟

محمد شحادہ : اگر آپ ان الزامات کی حقیقت کا سراغ لگائیں تو دیکھ لیں گے کہ صرف کم عقل افراد ایسے الزامات کو ہوادے رہے  ہیں؛ دنیا کی تمام تحریکوں پر الزام لگایا جاتا ہے  کہ وہ فلان جماعت، گروہ یا ملک و نظام کے لئے کام کررہے  ہیں؛ لیکن میرا عقیدہ یہ ہے  کہ کسی مسلمان کا دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ بننے  والا رابطہ عقیدے پر مبنی ہوتا ہے  اور ایران کے ساتھ میرا تعلق بھی اسی قسم کا رابطہ ہے  اور دین اسلام پر مبنی ہے  اور میرا ایران یا کسی بھی دیگر ملک کی سیکورٹی اور فوجی اداروں سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ ہر حریت پسند تحریک کو عام طور پر کسی ایک اڈے اور بیس (Base) کی ضرورت ہوتی ہے  اور ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ماضی میں ہمارا تعلق سوویت یونین اور چین کے ساتھ تھا.

المجلّہ : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جہاد اسلامی تحریک شیعہ افکار سے متاثر ہے  اور اس کے بانی شہید فتحی شقاقی مصر میں حصول تعلیم اور شیعوں کے ساتھ اپنے  تعلق کے دور سے ہی اس مذہب سے متأثر تھے؟

محمد شحادہ : جہاد اسلامی تحریک مذہب پر مبنی تنظیم ہے جو سنی ماحول میں اس امت کے بعض حریت پسندوں کے ہاتھوں تشکیل پائی ہے۔

المجلّہ : اگر آپ کو ایک شیعہ جماعت کی تشکیل کا موقع ملے توکیا آپ اس کا اہتمام کریں گے؟

محمد شحادہ : اس موضوع کے بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے  اور ہم کبھی بھی فلسطین میں تفرقہ اور اختلاف کا باعث نہیں بننا چاہتے جبکہ ہمارے درمیان مشترکہ نقاط اختلافی نقاط سے کہیں زیادہ ہے .

المجلّہ : آپ کی آرزو کیا ہے ؟ کیا آپ مستقبل میں فلسطین کو ایک شیعہ جمہوریہ تصور کرتے ہیں؟

محمد شحادہ : ہماری آرزو ہے  کہ پوری اسلامی دنیا پر اسلامی حکومت [حکومت مہدی (عج﴾] کی حاکمیت ہو؛ ہم سب مذاہب کو قریب سے قریب تر ہونے اور مسلمانوں کے درمیان مسلسل گفتگو اور بات چیت کی دعوت دیتے ہیں اور ہمیں امید ہے  کہ خدا کی مدد و مشیت سے شیعہ – سنی اور دیگر فرقوں کے درمیان موجودہ فاصلے سمٹ جائیں اور اختلافات کم سے کمتر ہوں.

بشکریہ رسالہ  " المجلہ "


متعلقہ تحريريں:

قدس کے سابق مفتی اور مسجد الاقصی کے خطیب شیخ عکرمہ صبری کا انٹرویو

 شہید عماد مغنیہ کے اوصاف؛ بیٹی کے زبانی

آمنہ بنت الہدي، ايک جليل القدرخاتون!

ڈاکٹر موسي ابو مرزوق  سے انٹرويو

آية اللہ العظمي سيد محمد حسين فضل اللہ دام ظلہ کا انٹرويو